جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں
بزم "پیامِ انسانیت"
آج بروز جمعرات، مؤرخہ 23/ دسمبر 2021ء مطابق 18/جمادی الاولی 1443ھ، جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں کا نواں پندرہ روزہ ثقافتی پروگرام مہتمم جامعہ مولانا جمال عارف ندوی صاحب کی صدارت میں منعقد ہوا، جس میں مولانا راشد اسعد ندوی صاحب بھی مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے تشریف فرما رہے۔ اس بزم کا عنوان تھا "پیامِ انسانیت"_ جلسہ کی نظامت خصوصی اول کے طالب علم حافظ شیخ مدثر کررہے تھے، تمہیدی گفتگو میں تحریک پیامِ انسانیت کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ "تحریک پیامِ انسانیت؛ وحدتِ ادیان کی دعوت کے لیے نہیں بلکہ وحدتِ انسان کے پیغام کے لئے برپا کی گئی ہے، الہ آباد سے ساٹھ ستر سال قبل اس تحریک کا آغاز ہوا، ہندو، مسلم مخلوط اجتماعات میں انسانیت کا پیغام سنایا جاتا تھا جس کے بہتر نتائج بہت جلد سامنے آنے لگے تھے، لیکن مفکر اسلامؒ کے بعد بحیثیت قوم مسلمانوں کی طرف سے اس تحریک کو جیسی توجہ دینی چاہیے تھی؛ نہیں دی گئی، آج اس تحریک کو دوبارہ زندگی دینے اور مزید طاقتور بنانے کی اشد ضرورت ہے۔"
طلبہ کی تقاریر ہوئیں، شیخ مجاہد (خصوصی اول) نے دوران تقریر کہا "پیام انسانیت نبوی اخلاق کو عملاً پیش کرنے کا نام ہے جو نبوت سے بھی پہلے نبی ﷺ نے اپنایا، جو آپؐ کے اخلاقِ کریمانہ کا حصہ تھا، جسے اماں خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان الفاظ میں بیان فرمایا؛
”کَلَّا وَاللّٰہِ لَایُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَداً اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلیٰ نَوَائِبِ الْحَقِّ .... خدا کی قسم ہرگز نہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ اللہ تمہاری جان کو مصیبت میں ڈال کر تم کو رُسوا کرے (آپ کی صفات بڑی اچھی ہیں ایسی صفات والا رُسوا نہیں کیا جاتا) آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور مہمان نوازی آپ کی خاص صفت ہے، آپ بے بس وبے کس آدمی کا خرچ برداشت کرتے ہیں، عاجز و محتاج کی مدد کرتے ہیں اور مصائب کے وقت حق کی، حق والوں کی مدد کرتے ہیں۔" ___ ان اوصاف کو عملی طور پر برادرانِ وطن کے ساتھ برتنا یہی تو پیام انسانیت ہے۔
ایک دوسرے طالبعلم نے اپنی تقریر میں مفکر اسلامؒ کا حقیقت افروز جملہ نقل کرتے ہوئے کہا کہ "مچھلی سر کی طرف سے سڑتی ہے لیکن انسان اپنے دل کی طرف سے سڑتا ہے، اسی لئے پیغمبر علیہم السلام دلوں کو بنانے سنوارنے اور نظام کے بجائے مزاج بدلنے کی بنیادی کوشش کرتے ہیں۔"
ایک تیسرے طالبعلم نے کہا کہ "اگر انسان کو لڑنے جھگڑنے کیلئے پیدا کیا گیا ہوتا تو خدا اس کے ہاتھوں کی جگہ تلوار پیدا کردیتا، اگر دولت جمع کرنا مقصد ہوتا تو اس کے سینے میں دل کے بجائے تجوری رکھ دی جاتی اور اگر قتل و غارت کرنے، تخریب کاری کے منصوبے بنانا اس کا کام ہوتا تو اس کے سر میں انسان کے بجائے شیطان اور راکشش کا دماغ رکھ دیا جاتا۔ لیکن اصل بات یہ ہیکہ انسان کو ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی اور بھائی چارہ برتنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔"
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
"بزمِ پیام انسانیت" کی خصوصیت:
اس بزم کی خصوصیت یہ رہی کہ طلبہ کی پیش کردہ تمام تقریریں؛ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کے پیام انسانیت کے اسٹیج سے دئیے گئے خطابات کے مجموعوں سے اخذ کرکے، مختصر کرکے، خطابتی رنگ میں ڈھال کر طلبہ کو یاد کروائی گئی ہے۔ اور اس پیشکش میں یہ بات مدنظر رکھی گئی کہ ان تقاریر کے ذریعے "تحریک پیامِ انسانیت کا پورا تعارف" واضح ہوجائے۔ الحمدللہ اپنی اس کوشش میں جامعہ کامیاب رہا، تقریر کے عناوین ہی سے اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
تقاریر کے عناوین :
1) پیام انسانیت کیا ہے؟ (شیخ مجاہد خصوصی اول)
2) پیام انسانیت کا تقاضہ (ضیاءالرحمن خصوصی ثالث)
3) برادران وطن میں اسلام کا تعارف اور ہماری اخلاقی ذمہ داری (نور محمد خصوصی ثالث)
4) پیغمبر انسانوں کا مزاج بدلتے ہیں (پرویز عالم خصوصی ثانی)
5) انسان بننے کیلئے دل بدلنے کی ضرورت (ارشد خان خصوصی ثانی)
6) ابھی تو لوگ ترستے ہیں زندگی کیلئے (محمد نعیم خصوصی ثانی)
7) گھٹا ٹوپ اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن (شیخ سمیر خصوصی اول)
8) پیام انسانیت کا طریقۂ کار (محمد طلحہ خصوصی ثالث)
9) پیام انسانیت سناؤ نظم (محمد عارش خصوصی اول)
_____________________
مہمانِ خصوصی مولانا راشد اسعد ندوی :
آپ قاضیِ شہر حضرت مولانا عبدالاحد ازہری دامت برکاتہم کے لائق فائق فرزند ہیں، مہمان خصوصی کی حیثیت سے رونقِ بزم رہے، آپ کو طلبہ کے لئے تربیتی گفتگو کی دعوت دی گئی، آپ نے امام شافعیؒ کے مشہورِ زمانہ، ناصحانہ و حکیمانہ شعر
أخي لن تنال العلم إلا بستةٍ ٭ سأنبيك عن تفصيلها ببيانِ
ذكاءٌ وحرصٌ واجتهادٌ وبُلغةٌ ٭ وصحبةُ أستاذٍ وطولُ زمانِ
ترجمانیِ شعر: میرے بھائی! تم علم کو چھ چیزوں کے بغیر حاصل نہیں کرسکتے، میں تمھیں اس کی تفصیل بتاتا ہوں۔
حاضر دماغی،علم کا شوق، محنت، تحقیق و جستجو، استاد کی مصاحبت اور حصولِ علم میں طویل مدتی انہماک۔
________
کی روشنی میں ناصحانہ رنگ و آہنگ میں مؤثر گفتگو فرمائی، جس پر جامعہ کے استاذ مولانا محمد اطہر ندوی نے دو جملوں میں جامع تبصرہ کیا اور ان کی خطابت کی دلکشی کو گویا الفاظ میں سمو دیا ؛
علامہ ابن الجوزی ؒ کے الفاظ مستعار لیتے ہوئے مولانا محمد اطہر ندوی نے کہا __ اذا تکلم أسمع : گفتگو کی تو اپنی سحربیانی سے سب کو ہمہ تن گوش کرلیا اور باتیں اتنی اہم فرمائیں جو از خود سامعین کی توجہ کا مرکز بن گئیں۔ __ یتفجر العلم من جوانبہ :مختصر سی تقریر میں مضامین کا ایسا بہاؤ تھا گویا کہ علم رویں رویں سے پھوٹ رہا ہو۔
اس بزم میں مہتمم جامعہ کے ہاتھوں مولانا موصوف کا شال پہناکر اعزاز کیا گیا اس پر آپ؛ اظہارِ تشکر کے طور پر مہتممِ جامعہ کیلئے دعائیہ کلمہ _ أکرمنی أکرمک اللہ : مولانا نے ہمارا اکرام کیا، اللہ آپ کو عزت و سرخروئی عطا کرے۔ _ کہتے رخصت ہوئے۔
خطبہ صدارت :
آخر میں صدر موصوف مولانا جمال عارف ندوی صاحب دامت برکاتہم کا صدارتی خطاب ہوا جس میں آپ نے بزم کی مناسبت سے بہت وضاحت کے ساتھ تین اہم باتیں پیش کیں۔ پہلی یہ کہ اس امت کے وجود کا مقصد کیا ہے؟ دوسری یہ کہ ہم اس ملک میں موجودہ حالات کا شکار کیوں ہیں؟ تیسری یہ کہ یہاں کے باشندوں کے ساتھ ہم کس طرح رہیں؟
مقصدِ وجودِ امت :_ اس امت کیلئے قرآن میں کہا گیا ؛ "اخرجت للناس : انسانوں کی نفع رسانی کیلئے برپا کی گئی" مسلمان جہاں بھی رہیں وہاں اپنے اعمال و اقوال، اپنی چال، ڈھال، اپنے اخلاق و کردار کے ذریعے یہ ثابت کریں کہ وہ انسانوں کیلئے نافع ہیں، اس کے ذریعے ساری انسانیت کو نفع پہنچ رہا ہو۔ تحریک کے روحِ رواں حضرت مولانا بلال حسنی دامت برکاتہم کا جملہ نقل فرمایا آپ نے کام کرنے والے ساتھیوں سے حالیہ اجلاس میں کہا "پیامِ انسانیت ایک دعوی ہے اور فیلڈ ورک اس کا ثبوت ہے، ہمیں عملی کام کرکے ثبوت پیش کرنا ہوگا۔
موجودہ تعصب کے حالات :_ امت مسلمہ بطور خاص ہندیہ نے اپنی نافعیت کو کھودیا ہے، یہ غیر نافع بن گئی ہے اسی لئے برادرانِ وطن میں اس کے خلاف نفرت و عداوت بیٹھ گئی ہے۔
ہمارے کردار کا بدلاؤ :_ ہم اپنوں سے اپنائیت اور غیر مسلموں سے اجنبیت برتتے ہیں، اسپتالوں میں اپنے مریضوں کی عیادت کرتے ہیں اور بازو کی پلنگ پر غیر مسلم کی طرف نظر اٹھاکر بھی نہیں دیکھتے۔ ہمیں "الخلق عیال اللہ : ساری مخلوق اللہ کا کنبہ ہے" اس ہدایت کے پیش نظر سارے دیس واسیوں کے ساتھ ایک فیمیلی ممبر کی طرح زندگی گزارنا ہے، فکر و نظر، عقیدے و مذہب کے اختلاف کے ساتھ آپس میں انسانی بنیادوں پر پیار و محبت، اخوت و ہمدردی کے ساتھ رہنا ہوگا۔
شعبہ نشرواشاعت
جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں
روداد نگار : نعیم الرحمن ندوی
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں