نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حضرت مولانا سید بلال عبدالحئ حسنی کا جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں دو روزہ قیام

حضرت مولانا سید بلال عبدالحئ حسنی کا جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں دو روزہ قیام



حضرت مولانا سید بلال عبدالحئ حسنی کا
جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں دو روزہ قیام
روداد نگار: نعیم الرحمن ندوی

       مؤرخہ 21 فروری 2022ء مطابق 19 رجب 1443ھ، بروز پیر، دن کی اولین ساعتوں میں صبح آٹھ بجے جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں جامعہ کے ناظم اعلی حضرت مولانا سید بلال عبد الحئ حسنی ندوی دامت برکاتہم کی آمد باسعادت ہوئی۔ یوں محسوس ہوا جیسے چمنِ جامعہ میں فصلِ بہار آگئی، ہر طرف رونق و شادابی پھیل گئی، چہروں پر خوشیاں، دلوں میں مسرتوں کے چراغ جل اٹھے۔ جامعہ کے طلباء، اساتذہ نے دو رویہ قطاروں میں بٹ کر حضرت دامت برکاتہم کا والہانہ استقبال کیا۔
 اے باد صبا کچھ تو نے سنا مہمان جو آنے والے ہیں ٭ کلیاں نہ بچھانا راہوں میں ہم آنکھ بچھانے والے ہیں
 کے مصداق اہل جامعہ نے اس سے بڑھ کر اپنے مہمان معظم کے لئے دل بچھا دئیے اور بڑی محبت و خلوص سے مہمان خانہ لے گئے۔

میڈیا میں انٹرویو :
        مہمان خانہ پہنچتے ہیں شہر کے چند صحافی حضرات نے بڑھ کر حضرت والا کا انٹرویو لیا۔ پیام انسانیت تحریک کا تعارف، موجودہ حالات میں اس کی ضرورت و اہمیت اور حجاب کے موضوع پر چند اہم سوالات کئے، حضرت والا نے تمام باتوں کے تشفی بخش جواب میڈیا کو دیئے جنہیں فوراً نشر کردیا گیا۔


        21-22 فروری، بروز پیر منگل حضرت مولانا کا جامعہ میں دو روزہ قیام طے تھا جس کے لیے مہتممِ جامعہ مولانا جمال عارف ندوی صاحب اور اساتذہ و ارکان کی ہفتوں پہلے سے شبانہ روز محنتیں، پروگرام کا نظم و نسق، مہمانوں کا انتظام اور بارگاہ الہی میں مسلسل دعائیں رہیں، جس کے سبب پروگرام بہت خیر و خوبی سے اختتام پذیر ہوا، اپنے مقصد میں بامراد رہا۔ والحمدللہ على ذلك

جامعہ کا سالانہ جلسہ و تکمیلات :
        21 فروری بروز پیر صبح ساڑھے دس بجے سے ایک بجے تک سالانہ جلسہ، تکمیل حفظ، تکمیل مشکوٰۃ شریف کا پروگرام ہوا۔ اختصار کے پیش نظر فقط اہم چیزیں ہی پیش کی گئیں، جامعہ ہذا کی تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کی ایک جھلک کے طور پر ایک ایک طالب علم کو اردو، عربی، انگریزی اور مراٹھی زبانوں میں تقریروں کے لئے پیش کیا گیا، تقریریں اپنے موضوع پر بڑی پرکشش تھیں اور طلبہ بھی کافی محنت سے تیار ہو کر آئے تھے۔ اردو تقریر 1) ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے (ضیاءالرحمن خصوصی ثالث) 2) زندہ رہنا ہے تو میر کارواں بن کر رہو (محمد اسعد خصوصی اول) عربی تقریر 3) ظہر الفساد فی البر و البحر بما کسبت ایدی الناس. (اسجد کمال خصوصی ثانی) انگریزی تقریر 4) دی میسیج آف ہیومنٹی ( The The message of humanity ) (اجود حسان خصوصی اول) اور مراٹھی تقریر 5) مانوتے چا سندیش (मानवतेचा संदेश) ( شیخ عزیر خصوصی اول) --- حضرت مولانا سید بلال حسنی ندوی صاحب نے انہیں توجہ سے سنا، سننے کے بعد اچھے تاثر کا اظہار کیا اور مراٹھی تقریر کے بارے میں کہا کہ میں نے طلبہ کی بہت سی مراٹھی تقریریں سنی ہیں لیکن اس طالبعلم نے ایسے فطری لب و لہجے میں تقریر کی اور ایکشن، اشارے، اتار چڑھاؤ کو ایسا برمحل و برموقع اپنایا کہ زبان اجنبی ہوتے ہوئے بھی معانی ومطالب سمجھا دیئے، بہت اچھی پیش رفت ہے۔ ماشاء اللہ

تعلیمی مظاہرہ :
       سالانہ جلسوں میں عموماً طلباء کی تقریریں وغیرہ پیش کی جاتی ہیں لیکن اہل جامعہ نے اس بات کو بھی ضروری سمجھا کہ کچھ تعلیمی مظاہرہ بھی ہو لیکن وقت کی قلت کے سبب فقط ایک ہی پیشکش ہو سکی گرچہ یہ بھی اپنے آپ میں بہت ہے۔ تفصیل یہ ہے کہ خصوصی اول کے طالبعلم اجود حسان جامعہ کے توسط سے "الکبیر انگلش میڈیم اسکول مالیگاؤں" میں دسویں جماعت میں زیر تعلیم ہیں، انگریزی زبان میں دلچسپی رکھتے ہیں، ان کی رغبت کو دیکھتے ہوئے طالب علم پر خصوصی توجہ صرف کی گئی اور انہیں درجے کے نصاب کی عربی کتاب "قصص النبیین اول" کے "قصۃ سیدنا ابراہیم" جو 23 صفحات، 16 اسباق پر مشتمل ہے، عربی سے انگریزی ترجمے و ٹرانسلیشن کی مشق کرائی گئی، مہتمم جامعہ چونکہ خود عربی انگریزی سے اچھی واقفیت رکھتے ہیں، آپ نے اپنی نگرانی میں تیاری کروائی اور اس حد تک کرائی کے پورے حصے میں سے کسی بھی جگہ سے طالب علم برجستہ عربی سے انگریزی ترجمہ پر قادر ہوگیا، اس کا مظاہرہ جلسے میں کروایا گیا اور شہر مالیگاؤں کے باصلاحیت عالم دین، عربی انگریزی دونوں زبانوں پر یکساں عبور رکھنے والے "مولانا محمد ادریس ندوی صاحب" کو اسٹیج پر مدعو کرکے طالب علم کو امتحان کے لیے پیش کیا گیا، مولانا نے تین غیر متعینہ مقامات سے برجستہ ترجمہ کروایا، طالبعلم نے بغیر کسی غلطی کے اطمینان بخش ترجمہ کیا جس کو سامعین سمیت مولانا موصوف نے بھی سراہا۔

تکمیلِ حفظ :
       اس کے بعد شعبہ حفظ میں تکمیلِ حفظ کرنے والے دو طالبعلم 1) محمد افسر ابن عبدالخالق 2) محفوظ الرحمن ابن حافظ افتخار احمد ملی نے حضرت مولانا کے سامنے آخری سورتوں کی تلاوت کرتے ہوئے زمرۂ حفاظ میں شمولیت اختیار کی۔

تکمیلِ مشکوۃ شریف :
       اس کے بعد خصوصی ثالث کے چھ خوش نصیب طلبہ نے مشکوۃ شریف کی آخری تین حدیثیں پڑھ کر تکمیل کی سعادت حاصل کی، حضرت مولانا نے تینوں احادیث کا ترجمہ اور دلنشین تشریح فرما ئی۔ -- اذا فسد اھل الشام ..... -- كے ضمن میں ملک شام کی تاریخی حیثیت، انبیاء صلحاء اور اولیاء عظام کا مسکن ہونے اور ہر زمانے میں اس کے خیر میں سبقت رکھنے کو واضح کیا، حدیث میں بتائی گئی بات کہ -- فلا خیر فیکم... -- اگر اہل شام فساد کا شکار ہوگئے تو امت میں عمومی بگاڑ اور ہمہ جہتی فساد پھیل جائے گا، موجودہ اور ماضی قریب کے تباہ حال شام کے آئینے میں اس بات کی پوری تصویر سامنے کردی، دلوں میں فکر آخرت اور عمل صالح کی رغبت پیدا ہوئی۔ اگلی حدیث -- ان اللہ تجاوز عن امتی.... -- اس حدیث کی بھی عقل و دل دونوں ہی کو مطمئن کر دینے والی تشریح فرمائی۔ آخری حدیث --کنتم خیر امۃ ... انتم تتمون سبعین امۃ. -- اس کی بھی بہت خوب اور نادر تشریح کی۔ تکمیلی درس بہت مفید رہا، علمی و فکری اعتبار سے بھی اور اثر انگیزی و تاثر پذیری کے نقطہ نظر سے۔ اللہ پاک آپ کی عمر، علم اور اخلاص میں برکت عطا فرماکر امت کیلئے مزید نفع بخش بنائے۔ آمین (جامعہ کے آفیشیل یوٹیوب چینل پر تکمیل مشکوٰۃ کا پورا بیان جلد ہی اپلوڈ کر دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ ...... )

        آخر میں مولانا کے ہاتھوں تکمیلِ حفظ اور "بیسک انگلش اسپیکنگ کورس" مکمل کرنے والے 14 طلبہ کو سند دی گئی۔ جامعہ میں اوائل ستمبر تا آواخر جنوری کم و بیش چار ماہ کا "انگلش اسپیکنگ کورس" رکھا گیا تھا جس میں 14 طلباء نے شرکت کی اور اچھا رزلٹ دیا انہیں بھی سرٹیفکیٹ سے نوازا گیا۔ 
       دعوتی اور عصری تقاضوں کے پیش نظر طلبہ کی ایسی تیاری جامعہ کے اہم اہداف میں سے ہے، سالانہ جلسے میں اردو کے ساتھ عربی، انگریزی اور مراٹھی تقریریں اور عربی سے انگریزی ترجمے کا تعلیمی مظاہرہ بھی اسی نقطۂ نظر سے پیش کیا گیا کہ طلبہ بلاتکلف ان زبانوں میں لکھ پڑھ سکیں، اپنے مافی الضمیر کو برجستہ ادا کرسکیں اور موجودہ زمانے کے اسلوب و زبان میں دعوت الی اللہ کے فرائض انجام دیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک ان اہداف کو جلد پورا فرمائیں۔
مولانا کی دعا پر اس جلسے کا اختتام ہوا۔

عصر کے بعد جامعہ و اطراف کا گشت :
     ظہر بعد قیلولہ فرماکر عصر کے بعد حضرت مولانا جامعہ نے کا تفصیل سے مشاہدہ کیا، تمام طلبہ و اساتذہ کے ساتھ عمارت میں گشت فرمایا اور جامعہ کے کیمپس سے ہوتے ہوئے اطراف کا بھی کچھ دیر پیدل گشت کیا، واپس آکر کیمپس میں تشریف فرما ہوئے، اسی دوران وارڈ کے ممبر اور دیگر سیاسی شخصیات نے ملاقات کی، صغیر ممبر نے پروگرام کے لئے راستوں کی درستگی وغیرہ کاموں میں بڑی دلچسپی لی، مولانا نے ان کو علاقے کی تعمیر و ترقی کی طرف متوجہ کیا اور صاف صفائی رکھنے کی باتیں کہیں۔


مغرب کے بعد طلبہ میں اہم خطاب :
       مغرب کے فورا بعد مولانا نے طلبہ میں گفتگو فرمائی، یہ بیان مختصر ہونے کے باوجود آپ کے تمام پروگراموں میں سب سے زیادہ قیمتی رہا، اس خطاب میں آپ نے ندوۃ العلماء کے قیام کی وجہ اور مقصد اس انداز میں بتایا کہ محسوس ہوا واقعی ندوۃ العلماء کا قیام اپنے وقت کی شدید ترین ضرورت تھی اور قیام ندوۃ سے وہ خلا پُر ہوا جو اگر نہ ہوتا تو امت کے لئے بڑے نقصان کا پیش خیمہ تھا۔ مولانا نے دارالعلوم دیوبند اور علی گڑھ کے قیام کی غرض و غایت کا بھی ذکر کیا، اس پس منظر میں بات چلی تو کہا کہ "دونوں چیزوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے، دماغ کا بھی اور دل کا بھی، اگر دل مسلمان ہوا، دماغ مسلمان نہ ہوا تو پنج وقتہ نمازی بلکہ تہجد گزار ہو کر بھی بے دینی کی ایک لہر چلنے پر ایسے شخص کا دین و ایمان خس و خاشاک کی طرح اڑ جائے گا، بہہ جائے گا۔" اس کی مثال میں بنگلہ دیش کے اردو اور بنگالی زبان کے لسانی تنازعے میں برپا ہونے والے فسادات کا ذکر کیا، جس میں بڑے بڑے دین دار نظر آنے والے لوگوں نے اپنے ہی بھائیوں کا گلا کاٹا۔ پھر کہا "اسی طرح دماغ مسلمان ہوا، دل مسلمان نہ ہوا تو آج جدید مفکرین جو فکری انحراف کا شکار ہیں اس کی جیتی جاگتی مثالیں ہیں۔ دینی شعار سے روگردانی کرنا اور عقل و دماغ کو بنیاد بناکر سہولت پسندی اپنانا، یہی سب ہوگا۔" علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے؛ 
تُو عَرب ہو یا عجَم ہو، ترا ’ لَا اِلٰہ اِلاَّ‘
لُغَتِ غریب، جب تک ترا دل نہ دے گواہی

        ایسی بے اعتدالیوں سے محفوظ رہنے کے لیے بطور خاص ابنائے ندوہ اور ان سے منسلک تمام اداروں کے طلباء سے مولانا نے کہا کہ "ندوے کی دو شخصیتیں ایسی ہیں جو دل اور دماغ دونوں اعتبار سے اسلام پر اعتدال کے ساتھ قائم رہی ہیں۔ 1) مولانا سید سلیمان ندوی 2) مولانا ابوالحسن علی ندوی دامت برکاتہم، ان کی تمام کتابوں کو پڑھنا چاہیے، ان کے مطالعہ کے بعد پھر جو چاہو پڑھو، اندیشہ نہیں۔ زمین تیار ہو جائے گی، دل و دماغ کی اسلام پر پختگی ہوچکی ہوگی تو قدم ڈگمگائیں گے نہیں، ثبات و استقامت حاصل رہے گی۔" پورا خطاب سننے سے تعلق رکھتا ہے۔ (جامعہ کے آفیشیل یوٹیوب چینل پر یہ بیان بھی جلد ہی اپلوڈ کر دیا جائے گا۔ ان شاء اللہ ...... )


عشاء سے قبل خصوصی باتیں اور ملاقاتیں :
        خطاب سے فارغ ہوکر مہمان خانہ تشریف لائے، شہر کی اہم شخصیات نے ملاقات کیں، اسی دوران مولانا نے مالیگاؤں شہر کی سڑکوں کی خستگی اور بدحالی وغیرہ کا تذکرہ کیا کہ مسلم اکثریتی علاقہ ہونے کے باوجود نہ سڑکیں درست ہیں نہ صفائی کا معقول انتظام، ملک کے بیشتر مسلم اکثریتی علاقوں کا یہی حال ہے حالانکہ مسلم اکثریتی علاقوں کو "نمونے کا شہر (Model city)" ہونا چاہیے، ان کے پاس اسلامی تعلیمات ہے، شہری انتظام ان کے ہاتھوں میں ہے اس کے باوجود ایسی صورتحال ہے یہ اسلام کے لیے رکاوٹ اور بدنامی کا سبب ہے۔ برادرانِ وطن اسلامی کتابوں کو نہیں دیکھتے وہ مسلمانوں کے رہن سہن، طرزِ زندگی، ان کے محلوں، شہروں کو دیکھتے ہیں۔ مولانا نے ایک واقعہ سنایا کہ غیر مسلموں نے کالونی بنائی اور اس میں طے کیا کہ کسی مسلمان کو فلیٹ نہیں دیں گے۔ جب اعتراض کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم تین باتوں کی وجہ سے مسلمانوں کو جگہ نہیں دے رہے ہیں۔ مسلمان جہاں رہتے ہیں وہاں 1) گندگی رہتی ہے۔ 2) جہالت ہوتی ہے اور 3) جھگڑا ہوتا ہے۔ مولانا نے فرمایا کہ بڑے افسوس کی بات ہے! یہ باتیں مسلمانوں میں موجود ہیں، گھروں، محلوں میں نہیں پورے پورے مسلم شہروں میں یہ کمزوریاں کھلی آنکھوں دکھائی دیتی ہیں، حالانکہ ہمارے دین میں سب سے زیادہ زور 1) صفائی پر دیا گیا ہے۔ (نظفوا افناءکم) 2) تعلیم حاصل کرنے کا تاکیدی حکم ہے، لفظ إقراء سے پہلا حکم الٰہی نازل ہوا (اقرأ باسم ربک...) اور 3) حسن اخلاق کی تعلیمات سے تو پورا قرآن بھرا ہوا ہے۔ لیکن افسوس مسلمان اسلام سے کتنا دور ہیں!!! انہی باتوں کے بیچ شہر کے ایم ایل اے مفتی محمد اسماعیل قاسمی صاحب اور مولانا زاہد ندوی صاحب تشریف فرما ہوئے۔ مولانا نے مفتی صاحب کو انہی مذکورہ بالا باتوں کی طرف توجہ دلائی اور کہا کہ شہر کے لوگوں کو سیاست سے اوپر اٹھ کر سوچنا اور شہری حالات میں تبدیلی لانا چاہیے، پیام انسانیت کا اہم کام ہے کہ ہم اپنی شبیہ درست کریں اور غیر مسلموں میں اسلام کی اخلاقی تعلیمات؛ عملی صورت میں پیش کریں۔ مفتی صاحب نے شہری صورتحال سے آگاہ کیا، شہریان کی نفسیات کو بیان کیا، درپیش چیلنجز کا ذکر کیا، آپ کی گفتگو سے محسوس ہوا کہ گویا کہہ رہے تھے۔ حضرت! 
اک بات کا رونا ہو تو رو کر صبر آئے
سو بات کے رونے کو کہاں سے جگر آئے 
"رونا" کی جگہ "اصلاح" پڑھیں تو بات اور زیادہ صاف ہوجائے گی۔
       لیکن حضرت مولانا اپنی باتوں کے بین السطور اور سیاق و سباق میں جو کہنا چاہ رہے تھے وہ یہ کہ --- یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ قوموں کے مزاج کی تبدیلی جہدِ مسلسل کی متقاضی ہے لیکن اصلاح کی بےبسی کا رونا اس کا حل نہیں، رہبری کسی وقت ٹھہراؤ کی متحمل نہیں ورنہ استبدال بالقوم کا فطری قانون جب شروع ہوتا ہے تو پوری پوری قوم کی بساط الٹ کر رکھ دیتا ہے۔ (وان تتولوا یستبدل قوما غیرکم.....) زعماء کی غلطیاں کبھی قوموں کی نیّا ڈبونے کا کام کرتی ہیں۔ معمارِ قوم کیلئے قوموں کے مزاج کی تشکیل، ان کی ذہنی ،فکری اور عملی تعمیر؛ لوہے کا چنا چبانا ہے اس سے انکار نہیں لیکن یہ ہمیشہ اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے جواب دہی کو پیش نظر رکھیں کہ ان سے محاکمہ ہوگا تو کہا جائے گا!
تو ادھر ادھر کی نہ بات کر، یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا؟
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں، تری رہبری کا سوال ہے


پہلے دن کا آخری پروگرام :
        عشاء کے بعد انگنو سیٹھ کی مسجد موتی پورہ میں، مولانا ادریس عقیل ملی دامت برکاتہم کی صدارت میں "تحریک پیام انسانیت کی اہمیت و افادیت" کے موضوع پر عمومی پروگرام ہوا۔ آپ نے اپنی پیرانہ سالی و ضعف کے باوجود جلسہ کی صدارت فرمائی۔ اورنگ آباد سے تشریف لائے مہمان مکرم مولانا جنید فاروقی ندوی صاحب نے تحریک پیام انسانیت کا تعارف اور طریقۂ کار پیش کیا۔ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب نے ابتدائی و تمہیدی گفتگو فرمائی، آخر میں حضرت مولانا سید بلال ندوی دامت برکاتہم نے تفصیلی خطاب فرمایا، نظامت کے فرائض جامعہ کے مؤقر استاذ مولانا محمد اطہر ندوی صاحب نے انجام دیئے اور بڑی خوبی سے اختتام تک کامیابی سے لے کر چلے۔ 
        عوام الناس کی خاصی تعداد شریک ہوئی اور دلجمعی سے باتیں سنی گئیں۔ امید ہے دل کے کانوں سے سنی گئی باتیں ضرور عمل کے سانچے میں ڈھلے گی۔ ان شاء اللہ العزيز --- وما ذلک علی اللہ بعزيز


نقد تشکیل :
       پروگرام کی خاص بات یہ رہی کہ اختتام کے بعد بڑی تعداد میں نوجوانوں نے پیام انسانیت سے جڑنے اور اسکے عملی کاموں کی انجام دہی کے لئے اپنے ناموں کو پیش کیا۔ اس طرح حضرت والا کے ہاتھوں "تحریک پیام انسانیت" کے کاموں کو آگے بڑھانے کے لئے جوشِ عمل سے لبریز، مالیگاؤں کے فعّال نوجوانوں کی ایک ٹیم تشکیل پائی۔ اس تحریک کی افادیت اسی بات کی متقاضی ہے کہ "مالیگاؤں جیسا تحریکی شہر" اپنا حصہ لگانے میں پیچھے نہ رہے۔ اللہ پاک ان نوجوانوں کو قبول فرمائے، انہیں اس کام میں دوام و استقامت عطا فرمائے۔ آمین


_____________________
دوسرا دن

پیام انسانیت کا صوبۂ مہاراشٹر کا 
سہ ماہی جوڑ و مشورہ :
       دوسرے روز "تحریک پیام انسانیت" سے منسلک ہو کر مہاراشٹر بھر کے کام کرنے والوں کا خصوصی جوڑ تھا جس میں ریاست مہاراشٹر میں تحریک کے فعال کارکنوں کو مدعو کیا گیا تھا۔ ممبئی، بھیونڈی، پونہ، دھولیہ، جلگاؤں، بھساول، آکولہ، امراوتی، اورنگ آباد، جالنہ، پربھنی، ناندیڑ، کوپرگاؤں، احمدنگر سمیت مہاراشٹر بھر کے تقریبا 30 شہروں اور قصبات سے کم و بیش 70 متحرک ممبران شریک تھے۔ شہر مالیگاؤں کے بھی فعال کارکنان شریک رہے۔ تمام حضرات نے اپنی کارگزاریاں پیش کیں اور آئندہ کے لیے کاموں کی مفید شکلیں کیا ہو؟ اس پر مشورہ ہوا۔ حضرت مولانا سید بلال عبد الحئ حسنی ندوی دامت برکاتہم شریکِ محفل رہ کر تمام کاموں کا جائزہ لیتے رہے اور مؤثر شکلوں کو اختیار کرنے کی ترغیب دیتے رہے۔ کچھ افراد ان باتوں کو قلمبند بھی کرتے رہے۔


حضرت والا کا خطاب اور اہم باتیں :
        پیام انسانیت جوڑ میں حضرت مولانا نے اول و آخر دو مرتبہ خطاب فرمایا۔ خطاب کی اہم باتیں پیش ہیں :
٭پیام انسانیت انسانی بنیادوں پر کیا جانے والا کام ہے۔ پیام انسانیت کا کام وحدتِ ادیان کا نہیں وحدتِ انسان ہے۔ ٭ یہ کام براہ راست دعوت کا کام نہیں بلکہ راہ ہموار کرنے کا کام ہے۔ ٭ ہم مخاطب کی اصطلاح کے مطابق اس کام کو غیر مذہبی کہتے ہیں ورنہ یہ کام تو ہمارے مذہب کا اہم حصہ ہے۔ لیکن اگر اس میں مذہبی باتوں کو بیان کیا جائے گا تو یہ درست نہیں ہوگا۔ ٭ یہ کام اللہ کی رضا کے لئے کریں، فاسد نیت کے ساتھ یہ کام نہ کریں۔ ٭ کام کرنے والوں کو عبادت کی زیادہ ضرورت ہے، یہ پٹرول کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ٭ نماز با جماعت کا اہتمام ہر قیمت پر ہو۔ ٭ تہجد اور نفلی عبادتیں دین کی محنت کی غذا ہے۔ اس ضمن میں "قم الليل الا قليلا" کی تفسیر بتلائی اور کہا کہ سب کا کام بن جائے اور ہم پیچھے رہ جائیں تو یہ خسارہ کی بات ہے۔ ٭ دعویٰ ہے انسانیت کی خدمت کا تو دلیل بھی ضروری ہے آج ہمارے پاس "دعویٰ بلا دلیل" ہے جس کی وجہ سے مطلوبہ اثرات مرتب نہیں ہورہے ہیں۔
_____________

جو امور طے پائے :
1) لٹریچر کی تقسیم
 2) ڈائیلاگ پروگرام 
3) ذہن سازی کی ترتیب بنانا اس طور پر کہ ہفتہ میں کم از کم تین ملاقاتیں ہوں۔
 4) پیام انسانیت کا کوئی پروگرام کسی اور دوسری تنظیم یا جماعت کے اشتراک سے نہیں کیا جاسکتا۔ 
5) غیرمسلمین کے مذہبی پروگراموں میں شرکت سے گریز کیا جائے۔
6) سب سے زیادہ توجہ ذہن سازی پر دی جائے۔ 
7) بلا تفریق مذہب و ملت مختلف سماجی و رفاہی کام جو اس سے قبل بیان کئے جاتے رہے ہیں انجام دیتے رہیں۔
_____________________ 

اختتامیہ :
        دوسرے دن صبح دس بجے سے شروع ہونے والا یہ جوڑ دوپہر چار بجے تک کامیابی سے چلتا رہا۔ آخر میں میزبان کی حیثیت سے مہتمم جامعہ مولانا جمال عارف ندوی صاحب نے دور دراز کا سفر کرکے شریک ہونے والے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ جامعہ کا مختصر سا تعارف بھی پیش کیا۔ آپ ہی کی دعا پر بابرکت جوڑ اختتام کو پہنچا۔

حضرت والا کی روانگی :
       مہمان مکرم حضرت مولانا سید بلال عبدالحئ حسنی دامت برکاتہم ممبئی کی طرف اگلے سفر کے لئے جامعہ سے رخصت ہوگئے۔ آپ کیا گئے جامعہ کی فضا سوگوار ہوگئی، وہ بہار جو دو روز سے چمنستان جامعہ میں اتری تھی آپ کے ساتھ اس نے بھی رختِ سفر باندھا اور شام ہوتے ہوتے سارا کیمپس سُونا سُونا ہوگیا۔


ذاتی تاثر :
        مولانا موصوف کی دو دنوں کی مصاحبت میں آپ کی ذات والا صفات میں مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندویؒ اور مرشد الامت مولانا رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کی سی اسلامی حمیت و غیرت اور پیامِ حق میں حکمت آمیز جرأت و بےباکی بہت جھلکی۔ آپ اپنے أخٌ کریمٌ مولانا عبداللہ حسنی ندویؒ کے بہترین جانشین و جگہ لینے والے اور آپؒ کے چلے جانے سے ہونے والے خلا کو خوبی سے پُر کرنے والے ہیں۔ آپ امت مسلمہ ہندیہ کیلئے، اپنے خاندانی سلف صالحین کے، حقیقی بقیۃ السلف کہے جانے کا، بلا مبالغہ پورا استحقاق رکھتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک بحیثیت ناظمِ اعلی جامعہ کے لئے آپ کا فیض جاری فرمادے۔ آمین یا رب العالمین

شعبہ نشرواشاعت جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جامعہ ابوالحسن علی ندوی مالیگاؤں میں ثقافتی پروگرام بعنوان علم اور اہل علم کا مقام

جامعہ ابو الحسن مالیگاؤں میں سہ روزہ تربیتی اور تعارفی نشست

جامعہ ابو الحسن میں بزم خطابت کا تیسرا پروگرام بعنوان "اسلامی عبادتیں اور تہذیب نفس"