جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں تعزیتی نشست
✍️ نعیم الرحمن ندوی
بروز پیر مؤرخہ 6 ذوالقعدہ 1446 ہجری مطابق 5/ مئی 2025ء جامعہ ابو الحسن مالیگاؤں میں خادم القرآن والمساجد کی رحلت پر تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا، ﴿ أذكروا محاسن موتاکم ﴾ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے، محسنينِ ملت کے سرخیل حضرت مولانا غلام محمد وستانوی رحمتہ اللہ علیہ کے وصال پر ملال پر آپ کے محاسن و صفات عالیہ کا ذکر خیر ہوا۔
اس تعزیتی نشست میں مولانا محمد اطہر ندوی صاحب نے مولانا مرحوم پر لکھی اپنی تاثراتی تحریر پڑھ کر سنائی۔
اس کے بعد مفتی حفظ الرحمن اشاعتی قاسمی صاحب نے گفتگو کی جس میں آپ نے بتایا کہ اشاعت العلوم اکلکوا میں مجھے طلب علم میں 11 سال رہنے کا موقع ملا، بڑے حضرت سے ایک کتاب پڑھنے اور لمبے عرصے تک ان کی خدمت میں رہنے کی سعادت حاصل ہوئی، آپ کا وصال اہل جامعہ کے لیے ہی نہیں بلکہ ملت اسلامیہ ہندیہ کے لیے باعث غم ہے۔ آپ نے بڑے حضرت کی سوانح کو مختصرا ذکر کیا، جن اساتذہ سے انہوں نے علم حاصل کیا، جن مشائخ سے انہوں نے اصلاح نفس لی، جن کی تربیت میں رہے، تدریسی خدمات، جامعہ اشاعت العلوم کے قیام اور اس کی وسیع خدمات یہ ساری تفصیلات بتائی۔
مفتی صاحب نے بڑے حضرت کے نمایاں اوصاف میں ذکر کیا، 1) اخلاص و للہیت 2) تواضع و انکساری 3) بے انتہا تعلق بالقرآن اور 4) مجاہدانہ زندگی 5) دعاؤں کا اہتمام ؛ بڑے حضرت فرماتے تھے، جس کو دعا کی توفیق مل گئی اس کو خیر کثیر مل گئی اور خود عصر سے درود شریف پڑھتے اور مغرب تک دعاؤں کا اہتمام کرتے۔ 6) خدمت دین اور خدمت قرآن، طالب علمی کے زمانے سے ہی قیام مدارس اور تعمیر مساجد کا عزم تھا جسے اللہ نے اگلی زندگی میں پورا فرمایا۔
آخر میں دعا کی کہ ہمارے استاد مولانا محمد حذیفہ وستانوی صاحب دامت برکاتہم کو اللہ اپنے والد کے کاموں کو آگے لے جانے والا بنائے اور میرے رفیق درس مولانا محمد اویس وستانوی کو ان کا معاون و مددگار بنائے۔
مہتمم جامعہ کا تعزیتی خطاب
مہتمم صاحب (مولانا جمال عارف ندوی) نے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی صاحب کا وصال، ملت اسلامیہ ہندیہ ہی کیلئے نہیں پورے عالم اسلام کے لیے ایک عظیم خسارہ ہے، اس لیے کہ آپ عالمی شخصیت تھے اور عالم اسلام آپ کی ذات سے فیضیاب ہو رہا تھا، اللہ نے آپ سے عظیم خدمات لی ہیں، ملک کے چپے چپے میں قیام مدارس اور تعمیر مساجد کا کام آپ کے ذریعے ہوا، اعداد و شمار تو فقط اندازہ ہے، آپ کا کام اعداد و شمار سے آگے ہے، اس لیے کہ بے شمار مقامات پر لوگوں کو بالواسطہ فائدہ پہنچایا جو شمار میں نہیں ہے، اللہ پاک جب کسی بندے کو قبول کرتے ہیں تو ان سے ایسی ہی وسیع خدمات انجام پاتی ہیں۔ آپ کی شخصیت دیکھ کر آیت شریفہ ﴿ إن اللہ اشتری من المؤمنين انفسہم و اموالہم بأن لہم الجنۃ ﴾ کی تفسیر سامنے آتی ہے کہ "اس شخص نے اپنی تمام صلاحیت اور جان و مال کا سودا؛ اللہ سے جنت کے بدلے کر لیا ہے" مولانا کی شخصیت تمام علماء کے لیے نمونہ ہے، آپ کی زندگی بہت علمی اور تصنیفی نہیں تھی لیکن اللہ نے جو کام لیا ہے وہ بے مثال ہے، اور اس کی وجہ 1) اخلاص و للہیت کا سرمایہ 2) اساتذہ کی خدمت کرکے ان کی دعائیں لینا اور 3) اہل اللہ کی صحبت اختیار کرنا تھا اسی وجہ سے انہیں امت میں محبوبیت ملی، آج ان کے انتقال پر نہ جانے کتنی آنکھیں اشکبار ہیں، کتنے دل تڑپ رہے ہیں یہ وہی شان محبوبیت ہے۔
آپ میں بہت ساری صفات حمیدہ تھیں لیکن میں ایک صفت کو آپ کی بڑی کرامت سمجھتا ہوں کہ "آپ کے دل میں روپیوں کی محبت کبھی نہیں آئی" مفکر اسلام رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ "لوگ صحابہؓ کی کرامت یہ سمجھتے ہیں کہ پانی پر گھوڑے دوڑائے اور پانی ان کے پیروں کو چھوا تک نہیں لیکن ابو الحسن اس بات کو ان کی سب سے بڑی کرامت سمجھتا ہے کہ بڑی بڑی فتوحات اور مال غنیمت کی کثرت کے باوجود صحابہؓ دنیا سے اس طرح گزر گئے کہ دنیا کی محبت ان کے دلوں کو چھو نہیں سکی،" میں بھی مولانا وستانوی رحمتہ اللہ علیہ کی بڑی کرامت یہی سمجھتا ہوں کہ قوم کی بڑی بڑی امانت، روپے پیسے ان کے پاس رہتے تھے، لاکھوں نہیں کروڑوں روپے لیکن پیسے کی محبت نے ان کے دل کو چھوا تک نہیں۔
طلبہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ __ طلبہ عزیز! وہ بھی مدرسے سے نکلے ہوئے انسان تھے، جب وہ ایسا بڑا کام کر سکتے ہیں تو ہم آپ بھی ایسا کرسکتے ہیں، ضرورت ہے کہ جو جذبہ؛ جو صفات مولانا وستانوی رحمتہ اللہ علیہ کی ذات میں تھیں اپنے اندر بھی پیدا کریں۔
آخر میں مہتمم صاحب نے مولانا مرحوم سے اپنے ذاتی تعلقات اور واقعات تفصیل سے ذکر کیا کہ پہلی مرتبہ 1992 میں طلب علمی کے زمانے میں ندوے میں دیکھا، 1997 میں بہی گاؤں ضلع امراوتی میں مدرسہ قائم ہوا مولانا سے تعاون کے سلسلے میں ملاقات ہوئی اور یہ آپ سے سے پہلی ملاقات تھی، تعارف ہوا والد بزرگوار مولانا عبدالمتین رحمتہ اللہ علیہ کے فرزند کی حیثیت سے انہوں نے بڑی شفقت فرمائی، عزت دی اور اشاعت العلوم اکل کوا میں تدریس کی پیشکش بھی کی، چند سالوں کے بعد جب میں ضلع امراوتی سے واپس وطن آیا اور معہد ملت میں تقرری ہوئی تو حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی خواہش ہوئی کہ میں جلگاؤں مہرون میں اکل کوا کی شاخ کی نظامت سنبھالوں لیکن گھر کے حالات ایسے تھے کہ وطن چھوڑ کر اب باہر جانا مشکل تھا اسلئے حضرت مولانا کی اس پیشکش کو قبول نہ کر سکا جس کا افسوس تھا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جامعہ ابوالحسن علی ندوی کی تعمیرات میں بھی بڑا ہی گرانقدر تعاون فرمایا۔
اللہ سے دعا ہے کہ انہیں غریق رحمت کرے، جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور آپ کے فیض کو عام و تام فرمائے، پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
شعبہ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں