میں اپنے گھر کے در و بام چھوڑ جاتا ہوں

اجود حسان بن محمد فاروق ندوی
(متعلم درجہ خصوصی ثالث، جامعہ ابو الحسن علی ندوی، مالیگاؤں)


ہوائے دشت و بیاباں بھی مجھ سے برہم ہے
میں اپنے گھر کے در و بام چھوڑ جاتا ہوں

سب سے پہلے ہم زمزمۂ شکر سے لبریز دل حمد و ثنا سے مزین زبانیں اور توصیف خداوندی کے چراغ سے روشن قلوب کو رب کائنات کے حضور سجدہ ریز کرتے ہیں جس نے خاک کے ذروں کو علم کے ذریعہ رفعتیں عطا کیں اور ہمیں انسانیت کے اعلی مقام پر فائز کیا اس کے بعد درود و سلام ہو اس محبوب ربانی پر جن کی تعلیمات ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔
 ایک وقت تھا جب ہم رندوں سے شراب علم کی لذت کسی ایسے علم و ادب کے میکدے میں حاضری کا تقاضا کر رہی تھی جہاں پہنچ کر علم و ہنر سے بے بہرہ شخص زیور علم سے آراستہ ہو جائے جو طالبان علوم نبوت کی تعلیم و تربیت کے لیے کوشاں، کندہ نا تراش کو جیتا جاگتا مجسمہ بنانے والا، زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرنے والا، مشکلات زمانہ میں ثابت قدمی سکھانے والا، تاریک راہوں میں مشعل فراہم کرنے والا ہو، لہو گرم رکھنے کے لیے کبھی پلٹنا جھپٹنا تو کبھی پلٹ کر جھپٹنا سکھاتا ہو اور جو شاہراہ حیات میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہو، جو زمانے کے ساتھ قدم بقدم چلتا ہو اور قدیم صالح و جدید نافع کا سنگم ہو۔ اللہ کا فضل ہوا کہ جامعہ ابو الحسن علی ندوی کی صورت میں یہ آرزو پوری ہوئی۔
اس دانش گاہ علم و معرفت نے ہمیں بولنے کا ڈھنگ دیا، لکھنے پڑھنے کا سلیقہ سکھایا، اظہار ما فی الضمیر کا ہنر دیا، آداب نشست و برخاست سکھائے، منبر رسول سے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کا موقع دیا، ہماری یہ خوابیدہ صلاحیتوں کو جگانے کے لیے النادی العربی، بزم خطابت اور بزم جوہر جیسے پلیٹ فارم دیے اور احقاق حق و ابطال باطل کے لیے شمشیر برہنہ بنانے کی بھرپور کوشش کی، تحریک پیام انسانیت کے ذریعے انسانیت نوازی کا پیغام دیا اور بتایا کہ تیرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے اسی طرح تبلیغی جماعتوں میں بھیج کر انذار قوم کا موقع دیا۔
 یہاں کے اساتذہ نے ہمیں خون جگر دے کر پروان چڑھایا اور اس لائق بنایا کہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم میں بھی حصہ لے سکیں بلکہ میں یہ کہوں گا کہ انہوں نے ہمیں یہ سبق دیا کہ اسلام میں علم کی تقسیم ہے ہی نہیں علم علم ہے خواہ کوئی ہو، ہمارے ان اساتذہ نے ہمیں سنوارنے میں کوئی کسر نہ رکھی، زمانہ کے نشیب و فراز سے ہمیں آگاہ کیا، ہمارے دل و دماغ کو ایمان و یقین کے شراروں سے منور کیا، ہمارا مستقبل بنانے میں ہم سے زیادہ فکرمند رہے، والدین کی طرح ہر موقع پر سایۂ شفقت ہم پر دراز رکھا۔

 رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے 
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

آج اس موقع پر میرا دل بے شمار یادیں اور جذبات لیے ہوئے ہے۔ جامعہ میں طے کیا گیا چہار سالہ سفر ایسی کتاب کے مانند ہے جس کے ہر صفحے پر تعلیم و تربیت اور علم و فکر کی داستانیں رقم ہیں، میں اسے فقط فضل خداوندی سمجھتا ہوں کہ اس نے ہمیں بہترین ذوق کے حامل ایسے مخلص اساتذہ دیے جنہوں نے مختلف فنون میں اپنی کڑھن اور خصوصی توجہات کے ذریعے ہمیں بنانے کا کام کیا، کسی نے مولانا نعیم الرحمن ندوی کی شکل میں درس حدیث کے ذریعے قلوب کو معرفت خداوندی اور عشق محمدی سے سرشار کیا تو وہیں قرآن کے اسرار و رموز مولانا جمال ناصر ندوی نے اپنی رہنمائی اور دلنشیں طرز تدریس سے ہم پر آشکارا کیا اسی طرح مفتی حفظ الرحمن قاسمی نے پوری جانفشانی کے ساتھ حدیث و فقہ دل و دماغ میں پیوست کرنے کی کوشش کی، سلف صالح و اکابر کی داستانوں اور ملفوظات کے ذریعے ہمیشہ ہماری تربیت اور تزکیہ نفس کے لیے کوشاں رہے اور ہر قدم پر ساتھ دیا، مولانا محمد اطہر ندوی نے درسیات کے ساتھ سخن تہمی و سخن دانی سکھائی ساتھ ساتھ خطابت و مضمون نگاری کا ملکہ پیدا کرنے میں از اول تا آخر ساتھ رہے، مولانا مفتی محمد کاظم ندوی نے ادب و بلاغت کے ذریعے عربی زبان کے پیچ و خم سے واقف کیا اور زبان و ادب کی چاشنی سے لذت بخشی، مولانا محمد قاسم ندوی نے انشاء پردازی سکھائی اور ہمہ وقت ہماری نگرانی کے فرائض انجام دیے، مولانا عبدالرحیم ندوی نے انگریزی زبان سکھانے کے ساتھ ساتھ ندوی فکر میں ہمیں ڈھالنے کی کوشش کی، محترم شعیب سر نے اپنے مخصوص انداز میں انگریزی زبان کے لعل و گوہر سے ہمارے دامن بھر دئے، مہتمم جامعہ مولانا جمال عارف ندوی صاحب نے اپنی شبانہ روز مخلصانہ کوششوں سے ہم فرزندان جامعہ ابی الحسن علی ندوی کو جمال علم و عرفان محبت دیا ساقی کی تلاش رکھنے والوں کو آپ کی ذات میں پورا میخانہ نظر آیا جہاں سے ہر رند نے اپنے ذوق اور ظرف کے مطابق اپنی پیاس بجھائی، جنہوں نے اپنی زندگی نہیں بلکہ اپنے آپ کو اس جامعہ کے لیے وقف کر دیا۔
  آج ہمیں اور ہمارے جامعہ کو اس بات پر بے حد خوشی ہے کہ ہم سلسلہ تعلیم و تعلم کو دراز کرنے کے لیے ملک کی مایہ ناز علمی و فکری درس گاہ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنو کا رخ کر رہے ہیں کسی نے کہا تھا
 وہ پھول سر چڑھا جو چمن سے نکل گیا
مگر ساتھ ساتھ حزن و ملال بھی دل سے پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے انسانی فطرت ہی کچھ اس طرح بنائی ہے کہ جب وہ کہیں کچھ ایام اور شب و روز گزار لیتا ہے تو اس جگہ سے اور وہاں کے لوگوں سے اسے ایک نسبت اور قلبی تعلق ہو جاتا ہے اور جب مفارقت کی گھڑی آتی ہے تو دل غم زدہ ہو جاتا ہے اور آنکھیں اشکبار ہو کر دل کی ترجمان بن جاتی ہیں، اے جامعہ!

 گزر تو جائے گی تیرے بغیر بھی لیکن
 بہت اداس بہت بے قرار گزرے گی

 اس وقت میری زبان کو یہ سکت نہیں کہ کما حقہ دلی جذبات بیان کر سکے البتہ جامعہ میں گزرا ایک ایک لمحہ مہتمم و اساتذہ جامعہ کی توجہات میں گزرا انہوں نے ہماری تعلیم و تربیت، آرام و آسائش اور قیام و طعام میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور یقینا یہی چار سالہ مدت جو ایک ہوا کے جھونکے کی طرح گزر گئی ہمارے لیے سرمایہ حیات ہے۔

 تیری یادوں کے حسیں پل کے سوا کچھ بھی نہیں
 میرے کشکول میں اس کل کے سوا کچھ بھی نہیں

 میں اہل جامعہ سے یہ التماس کرتا ہوں کہ جس طرح ان چار سالوں میں آپ کی نوازشات کا وافر حصہ ہمیں ملا اسی طرح تا دم آخر ہم پر نظرِ رحمت بنائے رکھنا اور زندگی کے ہر موڑ پر رہنمائی کرتے رہنا، ہمیں معلوم ہے کہ آپ ہمارے مستقبل کے لیے کتنے کوشاں ہیں آپ کہہ رہے ہیں:
 بیٹھ جانا نہ کہیں راہ طلب میں تھک کر 
آبلے پاؤں میں آ جائیں تو خنداں ہونا
 
اور ہم نے اس پیغام کو قبول کر لیا اور ان شاءاللہ زندگی کے ہر مرحلے اور ہر موڑ پر ہم اسے یاد رکھیں گے، *جن عزائم کو مادر علمی نے ہمارے سینوں میں ابھارا ہے اور ہمارے ذریعے اصلاح امت کا جو خواب دیکھا ہے اسے شرمندۂ تعبیر کر کے رہیں گے* ان شاءاللہ راہِ علم میں پیش آمدہ تمام تر مصائب کا خندہ پیشانی سے سامنا کرتے ہوئے اپنے ہدف کی طرف بڑھتے رہیں گے اور مشعل اسلام لے کر باطل کی تاریکیوں کو چاک کرتے رہیں گے، دنیا و آخرت میں مادر علمی کی نیک نامی کا باعث بنیں گے۔
 تا قیامت پھولتا پھلتا رہے تیرا چمن
 حشر کے دن تک تیرا گردش میں پیمانہ رہے

 اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اس منبع علم و فن اور دانش کدہ ابی الحسن کو دن دونی رات چوگنی ترقی عطا فرمائے، مستقبل کے تمام تر منصوبوں اور عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے اور اس گلشن سے جو کہ سرمایہ قوم و ملت ہے تا قیامِ قیامت امت مسلمہ کو فیضیاب کرے۔ آمین

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جامعہ ابوالحسن علی ندوی مالیگاؤں میں ثقافتی پروگرام بعنوان علم اور اہل علم کا مقام

جامعہ ابو الحسن مالیگاؤں میں سہ روزہ تربیتی اور تعارفی نشست