بلبلِ معہد ملت؛ مولانا زبیر احمد صاحب کے تاثرات
(جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں، آمد پر)
======================
جامعہ کے دسویں ثقافتی پروگرام میں کرسی صدارت پر جلوہ افروز رہے صدرِ موصوف کے تاثرات
======================
بسمہ سبحانہ تعالی
بہ نامِ خالقِ دانا و بینا
سکھایا جس نے جینے کا قرینہ
الحمدللہ! 2 جمادی الاخریٰ 1443ھ مطابق 6 جنوری 2022ء، بروز جمعرات، بوقت 11:30 بجے، شمالی مالیگاؤں کے مضافاتی علاقے میں جامعہ ابو الحسن علی ندویؒ، جامعہ نگر میں حاضری ہوئی۔ *اس مخزنِ علم و فضل، معدنِ دین و دانش اور مرکزِ دینی و عصری تعلیم* سے راقم کا روزِ اول سے تعلق رہا ہے۔ جامعہ ابو الحسن علی ندویؒ کے سنگِ بنیاد کی تقریب میں، جس میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے حضرت امیر شریعت سابع مولانا سید محمد ولی رحمانی (رحمۃ اللہ علیہ) اور مولانا سید بلال حسنی ندوی صاحب شریک تھے۔ راقم کو بھی شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ نیز *جامعہ کی شاندار مسجد اور جاندار مدرسے کی تقریبا ایک کروڑ، 55 لاکھ صرفے سے* تعمیر مکمل ہونے پر ان کی افتتاحی تقریب میں حضرت مولانا عبدالحمید صاحب ازہری (رحمۃ اللہ علیہ) کی معیت میں حاضری ہوئی۔ فالحمد للہ علی ذلک
تعمیر جامعہ کے دوران بھی کئی مرتبہ تعمیراتی کاموں کو دیکھنے کیلئے حاضری ہوئی۔ *مجھے سب سے زیادہ اس بات کی خوشی ہے کہ شمالی مالیگاؤں کے مضافاتی علاقے میں اس جامعہ کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔* دعا ہے کہ اس کے قیام کے ساتھ ہی اسے دوام و استحکام بھی عطا ہو۔
بر کریما کارہا دشوار نیست
وما ذلک علی اللہ بعزيز
*جامعہ ابوالحسن علی ندوی کے بانی و مہتمم میں مولانا جمال عارف ندوی صاحب* جو معہد ملت کے تدریسی اسٹاف میں بھی رہ چکے ہیں۔ اُس دوران مولانا محترم سے مخلصانہ و برادرانہ روابط رہے ہیں۔ گزشتہ ہفتے 4 جنوری 2022ء بروز منگل مَیں راحتہ کے سفر پر نکلا ہوا تھا۔ راستے میں مولانا جمال صاحب کا فون آیا کہ مولانا اس ہفتہ جامعہ ابوالحسن علی ندوی کا ماہانہ تقریری پروگرام آپ کی صدارت میں منعقد کرنا زیرِ غور ہے۔ میں نے بلاتردد اس لیے بھی اسے قبول کر لیا کہ عزیزانہ و مخلصانہ روابط میں انکار نامناسب بات تھی۔
حسبِ وعدہ راقم، عزیز القدر *مفتی خالد عمر ملی ندوی صاحب* کے ہمراہ 11:30 *جامعہ ابوالحسن علی ندوی* حاضر ہوا، اس جامعہ کے ماہانہ تقریری پروگرام کو از اول تا آخر سنا۔ ماشاء اللہ طلبۂ جامعہ نے موضوع کی مناسبت سے بہترین انداز میں *اردو، عربی اور انگریزی زبان* میں تقریریں کیں، اس پروگرام کی نظامت بھی ایک ہونہار طالب علم ہی انجام دے رہا تھا۔ *عنوان حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی حیات و خدمات، حضرت مفکر اسلامؒ کا ذوقِ قرآنی، دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے قیام کے محرکات وعوامل اور قدیم صالح اور جدید نافع کے قران السعدین کے مظاہر،* وغیرہ تھے۔ *تمام ہی شریک طلبہ نے انتہائی عمدگی کے ساتھ مائک پر اپنے مافی الضمیر کا اظہار پوری جرأت کے ساتھ کیا، اگر طلبہ کے نشاطات اور اساتذۂ جامعہ کے اقدام و عمل کی یہی رفتار رہی تو ان شاء اللہ جامعہ ابوالحسن علی ندوی کے ذریعے ملک و ملت کو نہ صرف علماء مہیا ہوں گے بلکہ خطباء اور واعظین بھی ملیں گے۔*
نگاہِ دور رس کہتی ہے ہاں روشن ہے مستقبل
بڑھے جانا، نہ ہمت ہار دینا امتحانوں میں
آخر میں *راقم آثم نے بھی حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ، دارالعلوم دیوبند، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ اور دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ سے متعلق اپنے افکار و خیالات* کو پیش کیا۔
*جامعہ ابوالحسن علی ندوی کے لئے مکرر عروج و ارتقاء کی دعا کرتے ہوئے اپنی معروضات ختم کرتا ہوں۔*
فقط
*(حافظ زبیر احمد ندیمی ملی)*
استاذ معہد ملت مالیگاؤں (10/1/2022)
_____________________
نوٹ : اصل دستی تحریر نیچے jpg میں ملاحظہ فرمائیں۔
⬇️⬇️⬇️
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں