تیسرا محاضرہ بعنوان "رد الحاد" جامعہ ابوالحسن علی ندوی (دیانہ مالیگاؤں)
محاضر : نعیم الرحمن ندوی
الحمدلله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد المرسلين، محمدٍ وآله وصحبه أجمعين.
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
﴿أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ﴾.
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم : كل مولود يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه" (البخاري) أو کما قال علیہ الصلوۃ والسلام.
تمہید:
مہتمم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب دامت برکاتہم، محترم اساتذۂ جامعہ اور عزیز طلبہ! آج ہم ایک ایسی گفتگو کی طرف بڑھ رہے ہیں جو ہمارے ذہنوں کو جھنجھوڑتی ہے، ہمارے دل و دماغ کو جگاتی ہے، اور ہمیں اس عظیم کائنات کے رازوں پر غور کرنے کی دعوت دیتی ہے۔ ہم بات کریں گے *الحاد* کے موضوع پر، جو آج کے دور میں ایک اہم سوال بن چکا ہے۔ کیا واقعی کوئی خدا نہیں؟ کیا یہ کائنات خود بخود وجود میں آگئی؟ یا پھر اس کے پیچھے کوئی ذہین خالق ہے؟ یہ محاضرہ ان سوالوں کے جوابات دیتا ہے، وہ بھی اس طرح کہ آپ جیسے نوجوان طلبہ آسانی سے سمجھ سکیں۔
تصور کریں کہ آپ ایک خوبصورت باغ میں ہیں، جہاں رنگ برنگے پھول، ترتیب سے لگے درخت، اور چہچہاتے پرندے ہیں۔ کیا آپ یہ مان سکتے ہیں کہ یہ سب کچھ خود بخود بن گیا، بغیر کسی باغبان کے؟ بالکل نہیں! اسی طرح یہ کائنات، ہمارا جسم، ہماری زبان جو مختلف ذائقوں کو محسوس کرتی ہے، یہ سب ایک ذہین خالق کی نشانیاں ہیں۔ یہ محاضرہ آپ کو بتائے گا کہ الحاد کیا ہے، ملحدین کے دلائل کیا ہیں، اور قرآن کریم ان کا جواب کس طرح دیتا ہے۔ یہ محاضرہ آپ کو دکھائے گا کہ کس طرح قرآن ملحدین کے اعتراضات کا جواب دیتا ہے۔ ہم یہ بھی جانیں گے کہ ملحدین کے دلائل اکثر گمان پر مبنی ہوتے ہیں، نہ کہ ٹھوس ثبوتوں پر، سائنس اور مذہب میں کوئی ٹکراؤ نہیں، بلکہ سائنس خود اللہ کی نشانیوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ الحاد کی جڑیں اکثر تکبر اور فطرت سے دوری میں ہوتی ہیں، جب کہ ہماری فطرت ہمیں اللہ کی طرف بلاتی ہے۔ اور تواضع اور عبدیت ہمیں اللہ کی معرفت کی طرف لے جاتی ہے۔
عزیز طلبہ! یہ محاضرہ صرف معلومات دینے کے لیے نہیں، بلکہ آپ کے اندر سوچ بیدار کرنے کے لیے ہے۔ یہ آپ کے ایمان کو مضبوط کرے گا، آپ کے سوالوں کے جواب دے گا، اور آپ کو اپنے رب سے جوڑنے کی کوشش کرے گا۔ تو آئیں، دل و دماغ کھول کر اسے سنیں، غور کریں، اور اپنی فطرت کی آواز کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ چلیں، اس فکری سفر کا آغاز کرتے ہیں!
پہلا حصہ
الحاد کیا ہے؟
جدید الحاد انگریزی زبان میں ایتھی ازم (Atheism) کا مترادف ہے۔ جو یونانی لفظ Atheos سے نکلا ہے، جس کے معنی without god کے ہیں۔اردو میں اسے دہریت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے معنی خدا کو ماننے کے عقیدے سے انکار کے ہیں۔ آج کا الحاد یہ ہے کہ آدمی یہ مانے کہ نہ خدا ہے اور نہ خدا ہوسکتا ہے۔
کیا الحاد کوئی مذہب ہے اور الحاد کے کوئی دلائل ہے؟ :
یہ کوئی مذہب نہیں ہے بلکہ خلاف مذہب چند باطل افکار کا مجموعہ ہے دوسرے لفظوں میں مذہب سے فرار ہونے کا خوبصورت دھوکہ ہے ایک سراب ہے جو مذہب سے نکال کر باطل افکار و نظریات کے سحر میں پھینک دیتا ہے مذہب انسان کا ایک فطری تقاضہ ہے اور الحاد مذہب کی جگہ دوسرے متبادل پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے جیسے وطنت اور قومیت وہ کہتا ہے کہ چند اصول اور اخلاق کے تابع رہ کر انسانی تمدن بنتا اور سنورتا ہے یہ مذہبی اور شریک قوانین کے متوازی اور مقابلے میں ملکی دستور اور قانون کو پیش کرتا ہے شارع علیہ الصلوۃ والسلام نے آخری خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر پیش کیا جس میں بلند انسانی اقدار اور انسانی حقوق بتائے گئے ہیں اس کے بدلے میں وہ اقوام متحدہ کا چارٹر پیش کرتا ہے کہ یہ انسانی مساوات کے لیے کافی ہے حالانکہ یہ انسانوں کا بنایا ہوا ہے گویا یہ کہتا ہے کہ ہمیں خدا کی ضرورت نہیں ہے اور مذہب جو خدا کے احکام ہیں اس کی بھی ضرورت نہیں ہے انسان خود اپنے لیے جینے کے طریقے بنائے گا نعوذ باللہ من ذالک
جدید زمانے کا الحاد اور قدیم زمانے کی دہریت میں فرق:
پرانے زمانے میں بھی الحاد تھا، مگر اسے سائنس کا سہارا حاصل نہ تھا۔جو کچھ تھا وہ محض الفاظ اور بے بنیاد تصور تھا۔ مثلاً امام ابو حنیفہ ؒ کی نسبت یہ واقعہ سنایا جاتا ہے کہ انھیں کسی ملحدوں کے مناظرے میں جانا تھا، اور جان بوجھ کر دیر سے آئے۔ ملحدوں نے ان سے کہا کہ ہم آپ سے کیا مناظرہ کریں ، آپ تو وقت کے ہی پابند نہیں ہیں۔ امام صاحب نے آگے سے فرمایا: دراصل اس جگہ آنے کے لیے میرے راستے میں ایک دریا پڑتا ہے، جسے عبور کرنا پڑتا ہے۔ میں آج جب دریا کے کنارے پہنچا تو وہاں دریا پار کرانے والا کوئی ملاح موجود نہیں تھا۔ میں کافی دیر ملاح کا انتظار کرتا رہا، پھر اچانک کیا دیکھتا ہوں کہ ایک درخت خودبخود کٹا، اس کے تنے سے تختے بھی خودبخود بن گئے۔ پھر میں اور حیران ہوا کہ وہ تختے پانی پر تیرتے تیرتے ایک ساتھ اکٹھے ہوئے اور درخت سے بننے والے کیل (لکڑی کے کیل)خودہی ان تختوں کو جوڑنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک کشتی تیار ہو گئی۔ وہ کشتی آکر میرے پاؤں کے پاس رک گئی اور میں اس میں سوار ہو کر دریا کے پار آلگا اور پھر یہاں پہنچا ہوں۔ اس سارے عمل کی وجہ سے مجھے دیر ہوگئی۔
ملحد مناظر نے کہا: امام صاحب، ایک آپ تاخیر سے آئے ، آپ نے وعدہ خلافی کی اور دوسرے آپ اب جھوٹ بھی بول رہے ہیں!
امام صاحب نے کہا: یہ جھوٹ کیسے ہے؟
مناظر بولے: اتنا کچھ خودبخود نہیں ہو سکتا۔ امام صاحب نے کہا: اگر یہ چھوٹا سا کام خودبخود نہیں ہو سکتا تو اتنی بڑی کائنات خودبخود کیسے بن سکتی ہے۔
یہ سن کر مناظر بے بس ہو کر خاموش ہو گیا۔
پرانے زمانے میں یہ مسکت جواب یعنی ( اعتراض کرنے والے کو خاموش کردینے والاجواب)تھا۔اور آج بھی عوام کے لیے تو مسکت ہے، لیکن بڑے بڑے سائنس دانوں اور ملحدوں کے لیے ایسا نہیں ہے، کیونکہ اب وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ والے کام تو آج بھی خود بخود نہیں ہوتے ، لیکن کائنات خود بخود بنی ہے، ہمارے پاس اس کے دلائل ہیں۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے باورچی خانے میں تو ہانڈی خودبخود نہیں پکتی ، مگر باہر باغ میں سیب خودبخود پک جاتا ہے۔آپ کے نہانے کے لیے غسل خانے میں پانی خودبخود نہیں آئے گا، لیکن سبزہ اگانے کے لیے بارش خودبخود آرہی ہے۔کائنات جس طرح اس وقت طبعی اصولوں پر چل رہی ہے، اسی طرح طبعی اصولوں پر بنی تھی۔ لیکن کشتی کا بننا، ہانڈی کا پکنا، نہانے کے لیے آپ کی ٹنکی میں پانی کا بھرنا طبعی اصولوں کے تحت نہیں آتا، اس لیے یہ کام تو خودبخود نہیں ہو ں گے لیکن وہ کام البتہ خودبخود ضرور ہوتے رہتے ہیں جوطبعی اصولوں پر ہوتے ہیں۔آپ کے کچے صحن میں ہو سکتا ہے کہ کسی وقت آم کا ایک درخت اچانک اگ آئے۔لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک آم آپ کی فریج میں اچانک آموجود ہو۔
خلاصہ یہ کہ ملحدین کا نظریہ یہ ہے کہ کائنات مادے سے بنی ہے اور طبعی اصول و فطری قوانین پر چل رہی ہے اس کائنات کا کوئی خدا اور خالق نہیں ہے یہ مادے سے بنی ہے اور اپنے آپ چل رہی ہے۔
طبعی اصول کیا ہے اور مادہ کیا ہے؟
طبعی اصول: طبعی اصول یعنی نیچرل پرنسپلز اس سے مراد وہ بنیادی قوانین ہیں جو فطرت کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں جیسے کشش ثقل کا قانون ہے۔ کوئی بھی چیز جب ہم اسے چھوڑتے ہیں تو زمین اسے کھینچ لیتی ہے یہ کشش اور مقناطیسیت ہے یہی کشش ثقل کا قانون کہلاتی ہے، یہ عمل کائنات میں اجسام کے درمیان یعنی اجرام فلکی؛ستاروں اور سیاروں کے درمیان کشش کے اصول کو بیان کرتا ہے۔
مادہ کیا ہے:
جو چیز نظر آئے، چھوئی جا سکے، وزن ہو اور جگہ لے، وہ مادہ ہے، مادہ ہر وہ چیز ہے جو جگہ گھیرتی ہے اور جس کا وزن ہوتا ہے۔ پانی، پتھر، کرسی، کتاب، ہوا اور انسان یہ سب چیزیں جگہ گھیرتی ہیں اور ان کا وزن ہوتا ہے، اس لیے یہ مادہ ہیں۔
مادہ تین بنیادی حالتوں میں پایا جاتا ہے:
1. ٹھوس (Solid) 2. مائع یا سیال (Liquid) 3. گیس (Gas)
سائنس دانوں کے مطابق: کائنات تقریباً 13.8 ارب سال پہلے بگ بینگ (Big Bang) نامی ایک عظیم دھماکے سے وجود میں آئی۔ اس دھماکے سے توانائی اور مادہ پیدا ہوا۔
مادے کا کردار:ابتدا میں صرف توانائی تھی، پھر یہ توانائی؛ ذرات، پروٹون، نیوٹرون، اور الیکٹران میں بدلی۔ ان ذرات نے مل کر ایٹمز بنائے، جن سے ستارے، سیارے، کہکشائیں اور ہماری زمین بنی۔ ہر چیز — پانی، مٹی، ہوا، جانور، انسان — مادہ ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔
سادہ زبان میں خلاصہ:توانائی → ذرات → ایٹمز → مادہ → کائنات _ مادہ کائنات کی بنیاد ہے، اور تمام اجرامِ فلکی، زمین، زندگی — سب مادے سے ہی وجود میں آئے ہیں۔
---------------------------
بگ بینگ (کائنات کی ابتداء)، اس کے طبعی اصول و قوانین اور مادہ (Matter) کے بارے میں اسلامی نقطۂ نظر کیا ہے؟
1- بگ بینگ اور اسلامی نظریہ
بگ بینگ تھیوری کہتی ہے کہ آج سے تقریباً تیرہ ارب آٹھ سو ملین سال قبل کائنات ایک نہایت گھنی اور گرم "سنگل پوائنٹ" (Singularity) میں سمیٹی ہوئی تھی، پھر اچانک ایک عظیم دھماکے کے ساتھ پھیلنا شروع ہوئی اور وقت کے ساتھ کہکشائیں، ستارے، سیارے اور مادہ وجود میں آیا۔
اس بات کی قرآن بھی تائید کرتا ہے کہ یہ ممکن ہے قرآن میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا. "کیا کافر نہیں دیکھتے کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے، تو ہم نے ان کو پھاڑ کر الگ کر دیا" (سورۃ الأنبياء 21:30)
__ یہاں "رتقاً ففتقناهما" کا مطلب ہے کہ آسمان اور زمین جُڑے ہوئے تھے، پھر اللہ نے انہیں الگ کر دیا۔ یہ مفہوم بگ بینگ کی ابتدائی کیفیت سے کافی حد تک مشابہ ہے، جہاں تمام مادی و توانائی ایک نقطے میں مرکوز تھی، پھر پھیلاؤ ہوا۔
---
2- طبعی اصول و قوانین (Laws of Physics) اور اسلام
سائنس کہتی ہے کہ کائنات کے آغاز کے بعد کچھ بنیادی قوانین وجود میں آئے جیسے کششِ ثقل (Gravity)، حرارت (Thermodynamics)، الیکٹرو میگنیٹزم، اور کوانٹم قوانین۔
اسلام میں عقیدہ ہے کہ یہ تمام قوانین خود بخود پیدا نہیں ہوئے بلکہ اللہ نے انہیں پیدا کیا اور مسلسل انہیں چلائے رکھتا ہے۔
قرآنی حوالہ : إِنَّ رَبَّكُمُ اللّهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ يُغْشِي اللَّيْلَ النَّهَارَ...
"تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا... وہی دن اور رات کو لپیٹتا ہے..."
(سورۃ الأعراف 7:54)
__ یہاں "دن اور رات کا لپیٹنا" گردش اور وقت کے نظام کی طرف اشارہ ہے، جو فزیکل لازز (Physical Laws) کے تحت چلتا ہے۔
حدیث میں بھی ہے کہ: "كَانَ الله وَلَمْ يَكُنْ شَيْءٌ غَيْرُه"
"اللہ تھا اور اس کے سوا کچھ نہ تھا" (صحیح بخاری: 3191)
یعنی قوانینِ فطرت، وقت، مکان — سب اللہ کے پیدا کردہ ہیں، ان کا کوئی ازلی وجود نہیں۔
---
3- مادہ (Matter) کے بارے میں اسلام کا نظریہ
سائنس کے مطابق مادہ (Matter) ایٹم سے بنتا ہے، اور ایٹم ذرات (Protons, Neutrons, Electrons) پر مشتمل ہیں، جو توانائی سے وجود میں آئے۔
اسلام کہتا ہے کہ مادہ ازلی نہیں بلکہ اللہ نے "عدم" سے پیدا کیا —
قرآنی دلیل: اللَّهُ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ "اللہ ہر چیز کا خالق ہے" (سورۃ الزمر 39:62)
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ "وہ آسمانوں اور زمین کا موجد ہے" (سورۃ البقرۃ 2:117)
__ "بدیع" کا مطلب ہے: جس نے بغیر کسی مثال اور بغیر پہلے سے موجود مادہ کے پیدا کیا۔
یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وقت اور مادہ، دونوں اللہ کی مخلوق ہیں، ازلی نہیں
ہم نے مادہ اور طبعی اصول کو سمجھ لیا، ملحدین کے نظریے کو جان لیا کہ وہ کہتے ہیں کہ کائنات اور اس کی ہر چیز اپنے آپ سے بنی ہے اور چل رہی ہے، مادہ اس کی بنیاد ہے اور طبعی اصولوں پر یہ رواں دواں ہے، قرآن کریم سے اس کا جواب بھی دیا گیا۔ اب ہم ایک چھوٹی سی عقلی مثال سے اس نظریے کے کھوکھلے پن کو سمجھتے ہیں۔
عقل سے دلیل:
عقلی دلیل ایک مثال سے سمجھیں (یہاں ایک تصویر بتانا ہے) ، ہماری زبان پر مختلف ذائقے چکھنے کی صلاحیت مختلف مقامات پررکھی گئی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری زبان کا ڈیزائن اس نے بنایا ہے جو یہ جانتا تھا کہ چیزوں میں ذائقہ ہوتا ہے اور اس کی کچھ مختلف صورتیں ہیں۔ اگر یہی مادہ اور طبعی قوانین ہی ہمارے اور ہماری زبان کے خالق ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس مادی یا طبعی اصول سے ایسا ہوا ہے۔ صاف لگتا ہے کہ زبان پر ذائقے کے یہ حصے اس ذات نے مقرر کیے ہیں، جو نہ صرف یہ جانتی تھی کہ مادے کی مختلف چیزوں میں ذائقہ ہوتا ہے، بلکہ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ انسان کو کون کون سے ذائقے دیے جائیں، تاکہ وہ ایک مناسب حد تک زندگی گزار سکے۔
یاد رکھنے کی بات:
سائنس خود مذہب کی دشمن نہیں ہے، لیکن کچھ فلسفی قسم کے گمراہ لوگ، اس سے کچھ ایسے نتائج نکال رہے ہیں جو مذہب کو ڈھانے والے ہیں۔
الحاد ایک ظن و گمان ہے بس :
قرآن مجید کے مخاطب دراصل وہ لوگ تھے، جو کسی نہ کسی صورت میں خدا کو مانتے تھے۔ بہت تھوڑے لوگ ایسے تھے، جو خدا کو نہیں مانتے تھے۔ ان کا ذکر بھی قرآن مجید میں کیا گیا ہے۔سورۂ جاثیہ (۴۵) میں ہے:
وَقَالُوْا مَا ھِیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنْیَا نَمُوْتُ وَنَحْیَا وَمَا یُھْلِکُنَآ اِلَّا الدَّھْرُ وَمَا لَھُمْ بِذٰلِکَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ ھُمْ اِلَّا یَظُنُّوْنَ.(۲۴)
ترجمہ: اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ : جو کچھ زندگی ہے بس یہی ہماری دنیوی زندگی ہے، (اسی میں) ہم مرتے اور جیتے ہیں اور ہمیں کوئی اور نہیں، زمانہ ہی ہلاک کردیتا ہے۔ حالانکہ اس بات کا انہیں کچھ بھی علم نہیں ہے، بس وہمی اندازے لگاتے ہیں۔
اللہ رب العزت نے اس دہریت کا جواب یہاں صرف یہ دیا ہے کہ ان کے پاس اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے، یہ محض اٹکل سے باتیں کررہے ہیں۔اس بات کے معنی یہ ہیں کہ انکارِ خدا کی کوئی دلیل دہریوں کے پاس موجود نہیں ہے۔البتہ بلاثبوت؛ رائے کوئی بھی بناسکتا ہے،جیسا کہ عہدِ نبوی کے دہریوں نے بنا رکھی تھی۔ موجودہ زمانے کی دہریت کی حقیقت بھی یہی ہے۔
انکار خدا پر دلیل کا فقدان:
ابھی تک کوئی ایسی دلیل اہل الحاد کے پاس نہیں ہے کہ جس سے انکارِ خدا لازم آتا ہو۔ صرف اتنا ہوا ہے کہ بہت سی باتوں کے مادی اسباب مزید معلوم ہو گئے ہیں۔ جیسے مذہب والے ہر چیز کے لیے کہہ دیتے ہیں کہ یہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ لیکن سائنس دان کہتے ہیں کہ یہ اس سبب سے ہوا ہے، اور وہ اُس سبب سے ہوا۔ لیکن بہت سے کاموں کے اسباب کا علم ہونا خدا کی نفی کو لازم نہیں کرتا۔
اسلام بھی سبب اور مسبب کے اس اصول کو مانتا ہے۔ لیکن آخر الامر خدائے عظیم و برتر کی مداخلت کا قائل ہے۔ اسی لیے علمائے متکلمین بھی علت و معلول کے رشتے کو دیکھتے رہے، لیکن وہ تسلسل کے قائل نہیں تھے، اول سبب؛ حکم الٰہی کو ہی قرار دیتے تھے، ورنہ تسلسل کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ قائم رہے گا۔ متکلمین کی یہ بات عقلی بھی ہے اور نقل یعنی شریعت کے معیار پر بھی پوری اترتی ہے۔ مثلاً قرآن مجید میں آیا ہے:
وَھُوَ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیٰحَ بُشْرًام بَیْنَ یَدَیْ رَحْمَتِہٖ حَتّٰٓی اِذَآ اَقَلَّتْ سَحَابًا ثِقَالًا سُقْنٰہٗ لِبَلَدٍ مَّیِّتٍ فَاَنْزَلْنَا بِہِ الْمَآءَ فَاَخْرَجْنَا بِہٖ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ کَذٰلِکَ نُخْرِجُ الْمَوْتٰی لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ.
ترجمہ: اور وہی (اللہ) ہے جو اپنی رحمت (یعنی بارش) کے آگے آگے ہوائیں بھیجتا ہے جو (بارش کی) خوشخبری دیتی ہیں، یہاں تک کہ جب وہ بوجھل بادلوں کو اٹھالیتی ہیں تو ہم انہیں کسی مردہ زمین کی طرف ہنکالے جاتے ہیں، پھر وہاں پانی برساتے ہیں، اور اس کے ذریعے ہر قسم کے پھل نکالتے ہیں۔ اسی طرح ہم مردوں کو بھی زندہ کر کے نکالیں گے۔ شاید (ان باتوں پر غور کر کے) تم سبق حاصل کرلو۔ (الأعراف: 57)
اس آیت میں دیکھیے کہ کس طرح ظاہر ی اسباب اور حقیقی سبب، یعنی مشیت الٰہی کو ساتھ ساتھ بیان کردیا ہے۔بارش سے پہلے ہواؤں کی کارفرمائی، ان کا پانی کے بوجھ سے بھاری ہونا، اور پھر ان کا کسی بے آب و گیا ہ زمین پر جا کر برسنا، اور پھر پانی ملنے کے سبب وہاں پودوں اور پھل پھولوں کا پیدا ہونا، سب ظاہری اسباب گنوائے گئے ہیں۔ لیکن ان ظاہری اسباب کے ساتھ ساتھ ایک اور چیز ہے جو ان کا اصل سبب ہے، وہ شروع میں ’ہُوَ الَّذِیْ‘ کے الفاظ میں اور آخر میں جمع متکلم کے صیغے کذالک نخرج الموتی سے بیان ہوئی ہے۔ یعنی الٰہ العالمین کی ذات۔
ان اسباب کے ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مشیت الٰہی موجود نہیں ہے۔
مشاہداتی دلیل :
یہ ایسی ہی بات ہے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے کہ گنے کے رس نکالنے کی وجہ ان دو گول لوہے کے پہیوں کے درمیان میں سے گزرنا ہے اور وہ یہ بھول جائے کہ ان پہیوں کو یوں رکھنے میں کسی انجینئر کا ہاتھ ہے۔ یہ دونوں پہیے ایسا کام خود نہیں کررہے ہیں، بلکہ ان کے یوں رکھے جانے یعنی (positions) کی وجہ سے ایسا کرپاتے ہیں۔
قرآن مجید پر اعتراضات کا جواب:
یہ محاضرہ اس کی گنجائش تو نہیں رکھتا کہ یہاں تمام اعتراضات کا جواب دے دیا جائے، جو قرآن پر کیے گئے ہیں، البتہ اتنی بات اصولی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ قرآن پر جتنے اعتراضات ہوئے ہیں، وہ محض نکتہ چینی ہے، قرآن مجید کے سیاق و سباق اور الفاظ واسالیب وغیرہ کا خیال کیے بغیر کیے گئے ہیں۔ قرآن پاک غلطیوں سے پاک ہے اس لیے کہ اس کے نازل کرنے والے کی صفت ہے؛ لا یضل ربی ولا ینسی. نہ وہ خطا کرتا ہے نہ بھولتا ہے اور پھر یہ کتاب بہت حکمت والے، بڑی خبر رکھنے والے کی طرف سے بہت محکم اور مدلل کرکے بڑے اہتمام سے نازل کی گئی ہے؛ کتاب أحکمت آیاتہ ثم فصلت من لدن حکیم خبیر.
یہاں ہم چند ایک مثالیں بیان کریں گے۔
اعتراضات :
قرآن مجید پر بہت سے اعتراضات میں سے ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ اس میں بہت سے تضادات ہیں۔ تضاد کہتے ہیں ایک ہی وقت میں دو باتیں یا دو ایسے دعوے جو باہم ضد ہوں آپس میں ٹکراتے ہوں۔ حالانکہ خود قرآن مجید تضاد کے نہ ہونے کو اپنے کلام الہی ہونے کی دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے کہ:
اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَیْرِ اللّٰہِ لَوَجَدُوْا فِیْہِ اخْتِلَافًا کَثِیْرًا.
ترجمہ: کیا یہ لوگ قرآن میں غور وفکر سے کام نہیں لیتے ؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ اس میں بکثرت اختلافات پاتے۔ (النساء: 82)
یعنی وہ کتاب جس میں تضادات ہوں وہ اللہ کی کتاب نہیں ہے۔ تضادات کی بہت سی مثالوں میں سے ایک یہ کہ اللہ کے دن کی لمبائی مختلف جگہوں پر مختلف بیان کی گئی ہے، اس لیے کہ تیئس سال میں تیار ہونے والی کتاب کا مصنف (نعوذ باللہ) بھول گیا کہ پہلے اس نے کیا بات کہی اور بعد میں کیا کہنا چاہیے۔ چنانچہ دیکھیے ایک مقام پر کہا گیا ہے کہ اللہ کا دن ہمارے ایک ہزار سال کے برابر ہے:
وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ.
ترجمہ : اور یقین جانو کہ تمہارے رب کے یہاں کا ایک دن تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کی طرح کا ہوتا ہے۔ (الحج آیت نمبر 47)
دوسرے مقام پر قرآن مجید ہی کہتا ہے کہ ایک دن کی لمبائی پچاس ہزارسال ہے:
تَعْرُجُ الْمَلآءِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ.
ترجمہ: فرشتے اور روح القدس اس کی طرف ایک ایسے دن میں چڑھ کر جاتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔ (المعارج: 4)
معتبر کتب تفاسیر سے اس کو دیکھئے
روز قیامت کی درازی ایک ہزار سال یا پچاس ہزار کی تحقیق:
ان آیات میں روز قیامت کی مقدار پچاس ہزار سال اور ایک ہزارسال آئی ہیں۔ بظاہر ان میں تعارض اور تضاد ہے اس کا جواب مذکورہ روایات حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اس دن کا طول مختلف گروہوں کے اعتبار سے مختلف ہوگا، کفار کے لئے پچاس ہزار سال کا اور بعض کافروں کے لئے صرف ایک ہزار سال کی برابر ہوگا اور مؤمنین صالحین کے لئے ایک نماز کے وقت کے برابر
اس کی ایک توجیہ تفسیر مظہری میں یہ بیان کی گئی ہے کہ ایک ہزار سال کے برابر جس دن کا ذکر ہے وہ دنیا ہی کے دنوں میں کا ایک دن ہے اس میں جبرئیل ؑ اور فرشتوں کا آسمان سے زمین پر آنا پھر زمین سے آسمان واپس جانا اتنی بڑی مسافت کو طے کرتا ہے کہ انسان طے کرتا تو اس کو ایک ہزار سال لگتے کیونکہ احادیث صحیحہ میں آیا ہے آسمان سے زمین تک پانچ سو سال کی مسافت ہے تو پانسو سال اوپر سے نیچے آنے کے اور پانسو واپس جانے کے یہ کل ایک ہزار سال انسانی چال کے اعتبار سے ہیں کہ بالفرض انسان اس مسافت کو قطع کرتا تو آنے اور جانے میں ایک ہزار سال لگ جاتے اگرچہ فرشتے اس مسافت کو بہت ہی مختصر وقت میں طے کرلیتے ہیں تو سورة سجدہ کی آیت میں دنیا ہی کے دنوں میں سے ایک دن کا بیان ہوا اور سورة معارج میں قیامت کے دن کا بیان ہے جو ایام دنیا سے بہت بڑا ہوگا اور اس کی چھوٹا بڑا ہونا مختلف لوگوں پر اپنے اپنے حالات کے اعتبار سے مختلف محسوس ہوگی۔ واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
قرآن مجید کے الفاظ پر دھیان دیاجائے تو بھی اعتراض ختم ہوجاتا ہے۔ پہلے مقام میں الفاظ ہیں ’وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ‘، یعنی اللہ کے نزدیک یا اللہ کے شمار میں ایک دن کتنا لمبا ہے: جب کہ دوسرے مقام میں اللہ کے دن کی لمبائی نہیں بتائی جارہی ہے، بلکہ صرف ایک عرصہ یا ایک مدت بتائی جارہی ہے کہ جس میں فرشتے زمین سے خدائے پاک کے دربار میں پہنچیں گے۔ دونوں کا مضمون الگ الگ ہے۔ تضاد تو اس صورت میں ہوتا کہ دونوں جگہ یہ کہا جاتا کہ دن کی مقدار اللہ کے نزدیک اتنی اور اتنی ہے۔
اصل میں عربی زبان میں دن بمعنی یوم بھی بولا جاتا ہے، اور بمعنی مدت اورعرصہ بھی۔ جتنی مشہور زبانیں ہیں، ان سب میں لفظِ ’دن‘ ان دونوں معنی میں بولا جاتا ہے۔ مثلاً اردو میں دیکھیے:
عمرِ دراز مانگ کے لائے تھے چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
اگر کوئی اس شعر میں چار دن واقعی بارہ بارہ گھنٹے یا چوبیس چوبیس گھنٹے کے دن سمجھے تو شعر اس کے لیے عجیب و غریب معنی دے گا۔اسی طرح انگلش میں کہا جاتا ہے: At the end of the day، اس کا مطلب ہے کسی کام کے اختتام پرخواہ اس کی لمبائی کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو۔ اسی طرح کہا جاتا ہے: in this day and age، اس کے معنی ہیں: اس زمانے میں، یعنی عہد حاضر میں یا آج کل۔خلاصہ یہ کہ ،دن‘ کا لفظ زمانے اور وقت کے معنی میں آتا ہے۔ اسی معنی میں قرآن مجید نے بھی استعمال کیا ہے۔
---------------------------
ایک اور اعتراض
تضاد ہی کی قسم کا ایک اور اعتراض لفظِ ’یوم‘ ہی کے حوالے سے کیا گیا ہے۔ قوم عاد کے بارے میں قرآن مجید میں آیا ہے:
کَذَّبَتْ عَادٌ فَکَیْفَ کَانَ عَذَابِیْ وَنُذُرِ اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا صَرْصَرًا فِیْ یَوْمِ نَحْسٍ مُّسْتَمِرٍّ.(سورۃ القمر ۱۹)
ترجمہ : ہم نے ایک مسلسل نحوست کے دن میں ان پر تیز آندھی والی ہوا چھوڑ دی تھی۔
یہاں ایک دن کے عذاب کا ذکر کیا گیا ہے۔ جب کہ دوسرے مقام پر اسے یوں بیان کیا گیا ہے:
وَاَمَّا عَادٌ فَاُھْلِکُوْا بِرِیْحٍ صَرْصَرٍعَاتِیَۃٍ سَخَّرَھَا عَلَیْھِمْ سَبْعَ لَیَالٍ وَّ ثَمٰنِیَۃَ اَیَّامٍ حُسُوْمًا فَتَرَی الْقَوْمَ فِیْھَا صَرْعٰی کَاَنَّھُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِیَۃٍ. ( الحاقۃ ۶-۷)
ترجمہ : اور جو عاد کے لوگ تھے، انہیں ایک ایسی بےقابو طوفانی ہوا سے ہلاک کیا گیا۔ ۞ جسے اللہ نے ان پر سات رات اور آٹھ دن لگاتار مسلط رکھا۔ چنانچہ تم (اگر وہاں ہوتے تو) دیکھتے کہ وہ لوگ وہاں کھجور کے کھوکھلے تنوں کی طرح پچھاڑے ہوئے پڑے تھے۔ ۞ (الحاقة : 6-7)
یہاں ایک دن کے بجائے واضح طور پر سات راتیں اور آٹھ دن بتایا گیا ہے۔ یہ بھی معترضین کے نزدیک ایک اعتراض ہے۔ ایک ہی عذاب کو ایک جگہ ایک دن کا کہا گیا ہے اوردوسری جگہ سات راتوں اور آٹھ دنوں کا. یہاں بھی وہی یوم کے معنی کا مسئلہ ہے۔ یوم پہلے مقام میں عرصہ کے معنی میں آیا ہے اور دوسرے مقام میں دن کے معنی میں۔ اسی لیے قرآن مجید نے پہلے مقام پر یوم کی ایک صفت مستمربیان کی جو کہ ایک قرینہ ہے اس بات کا کہ یوم یہاں نہار یا دن کے معنی میں نہیں، بلکہ عرصہ کے معنی میں آیا ہے۔
قرآن مجید پر ہونے والے تمام اعتراضات کی نوعیت یہی ہے۔
قرآن اور سائنس کے ٹکراؤ سے متعلق اعتراض:
ملحدین کا یہ اعتراض کہ قرآن مجید میں کہیں بھی زمین کوسورج کے گرد گردش کرتے نہیں بتایا گیا، صرف سورج اور چاند وغیرہ کی گردش کا ذکر ہے۔ اس لیے قرآن قدیم علم ہیئت کے مطابق ہی باتیں کررہا ہے، اس لیے وہ اللہ کی کتاب نہیں ہے۔ کیونکہ حقیقت تو یہ واضح ہوئی ہے کہ زمین گردش کررہی ہے ۔یہی حقیقت سات آسمانوں کی ہے، بدھ ازم اور دوسرے علاقوں کے تصوراتِ ارض و سما میں آسمان سات ہی تھے، اس لیے قرآن مجید نے بھی سات ہی کا ذکر کردیا۔ گویا یہی حق ہو۔
پہلی بات یہ کہ قرآن مجید سائنس کی کتاب نہیں ہے یہ اصولی بات واضح رہنی چاہیے۔ یہ ہدایت کی کتاب ہے۔ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِینَ. اس میں مظاہر قدرت صرف بطور دلیل بیان ہوئے ہیں۔ سائنسی دریافت کے بیان کے لیے نہیں۔مثلاً قرآن مجید نے جہاں ارض و سما کا ذکر کئی اعتبار سے کیا ہے۔ کہیں صرف ہمیں دکھائی دینے والے ستاروں سیاروں کے لیے ، کہیں پوری کائنات کے لیے۔
اب رہا زمین کی گردش کا مسئلہ ، تو اگر قرآن نے زمین کی گردش کا ذکر نہیں کیا تو یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس میں زمین کے ساکن ہونے کا ذکر بھی نہیں ہے۔ قرآن کا نقص تو اس صورت میں تھا کہ وہ زمین کو ساکن کہہ دیتا جیسا اس زمانے کا نظریہ تھا۔ یہ بھی حیرت انگیز بات ہے کہ وہ سورج چاند ستاروں کی گردش کا ذکر کرتا ہے جو اس زمانے کے لوگوں کا نظریہ تھا۔ لیکن کمال مہارت سے زمین کی گردش کے ساکن ہونے کا ذکربھی نہیں کرتا۔ اس لیے کہ مظاہر قدرت کی ایسی باتیں جو اس وقت کے نظریات سے ٹکراتی تھیں ، ان کا ذکر کرکے اصل دعوت کو پس پشت ڈالنے کے برابر تھا۔ قرآن کا سارا زور تنقید عقائد ، بدعات اور غلط قسم کے دینی تصورات پر تھا۔ اس لیے کہ وہ دین ہی کی اصلاح کے لیے آیا تھا، سائنسی علوم کی اصلاح کے لیے نہیں۔ یہاں تک کہ جنگوں میں اسلحہ کی ضرورت پڑی تو اس کا اشارہ تک نہیں کیا کہ آؤ میں تمھیں بتاتا ہوں کہ کوئی تیز قسم کا ہتھیار یوں بنا لو، لیکن یہ بتا دیا کہ رسول کی موجودگی میں میدان جنگ میں نماز کیسے پڑھو گے یا ایسے مواقع پر نماز قصر کرلو گے۔ اسی سے واضح ہوتا ہے کہ قرآن کا موضوع سائنس نہیں ہے۔ اس نے دین کی تو جزئیات تک بتائی ہیں، لیکن سائنس کی نہیں۔
---------------------------
دوسرا حصہ
الحاد اور ملحدین کے بارے میں قرآن کریم کیا کہتا ہے؟
تمہیدی بات
قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو انسانیت کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ یہ نہ صرف ایمان والوں کو راہ دکھاتا ہے بلکہ ان لوگوں کو بھی عقل اور استدلال سے دعوت دیتا ہے جو اللہ کے وجود یا آخرت سے انکار کرتے ہیں۔ الحاد، یہ اللہ کے وجود سے انکار کا ایک رویہ ہے، قرآن کی نظر میں نہ صرف فطرت کے خلاف بغاوت ہے بلکہ ایک غیر منطقی و غیر عقلی موقف ہے۔ قرآن بار بار کائنات کے نظام، انسان کی تخلیق، اور فطرت کی نشانیوں کی طرف توجہ دلاتا ہے تاکہ انسان اپنے خالق کو پہچانے اور اس کی طرف رجوع کرے۔
اللہ کے وجود سے انکار کا ذکر
قرآن کریم ان لوگوں کا ذکر کرتا ہے جو اللہ کے وجود یا آخرت سے انکار کرتے ہیں، ایک ملحد کہتا ہے کہ کائنات خود بخود وجود میں آئی اور اس کا کوئی خالق نہیں۔ قرآن اسے غیر منطقی قرار دیتا ہے۔ قرآن اسے "ظن" (گمان) کہہ کر رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کے پاس اس دعوے کی کوئی علمی بنیاد نہیں۔
ارشاد باری ہے؛ وَقَالُوا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ۚ وَمَا لَهُمْ بِذَٰلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۖ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ. سورۃ الجاثیہ (45:24)
ترجمہ: "اور وہ کہتے ہیں کہ یہ (زندگی) تو بس ہماری دنیا کی زندگی ہے، ہم مرتے ہیں اور جیتے ہیں، اور ہمیں تو بس زمانہ ہلاک کرتا ہے۔ اور ان کے پاس اس کا کوئی علم نہیں، وہ تو محض گمان کرتے ہیں۔"
اگر کوئی ملحد کہے کہ کائنات ایک اتفاقیہ عمل (مثلاً بگ بینگ) سے وجود میں آئی، تو قرآن پوچھتا ہے کہ اس عمل کے پیچھے کوئی ذہین منصوبہ ساز کیسے نہیں ہوسکتا ؟ قرآن منطقی سوالات اٹھاتا ہے: کیا کوئی چیز خود بخود وجود میں آسکتی ہے؟ یا کیا انسان خود اپنا خالق ہے؟ یا انسان ہی نے آسمان و زمین کو بنایا ہے؟
آیت : أَمْ خُلِقُوا مِنْ غَيْرِ شَيْءٍ أَمْ هُمُ الْخَالِقُونَ أَمْ خَلَقُوا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ ۚ بَلْ لَا يُوقِنُونَ. سورۃ الطور (35-36)
ترجمہ: "کیا وہ بغیر کسی خالق کے پیدا ہوگئے، یا وہ خود خالق ہیں؟ یا انہوں نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا؟ بلکہ وہ یقین نہیں رکھتے۔"
یہ آیات ملحدین کے اس عقیدے کو چیلنج کرتی ہیں کہ کائنات بغیر کسی خالق کے وجود میں آئی۔ یہ آیات عقل کو دعوت دیتی ہیں کہ کائنات کی پیچیدگی اور نظم ایک شعوری ذات (اللہ) کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
اللہ کی نشانیوں سے منہ موڑنا
ایک ملحد فطرت کے نظام کو سائنسی اصولوں سے سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن قرآن کہتا ہے کہ یہ اصول خود ایک ذہین خالق کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، ڈی این اے کی پیچیدگی یا سیاروں کی گردش کا مضبوط و محکم نظام اتفاق سے نہیں ہو سکتا۔ قرآن کائنات کی نشانیوں کو اللہ کے وجود کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے اور ملحدین کو ان سے غفلت برتنے والوں کے طور پر بیان کرتا ہے۔
آیت : وَمِنْ آيَاتِهِ خَلْقُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافُ أَلْسِنَتِكُمْ وَأَلْوَانِكُمْ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِلْعَالِمِينَ. سورۃ الروم (30:22)
ترجمہ: "اور اس کی نشانیوں میں سے ایک آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور تمہاری زبانوں اور رنگوں کا الگ الگ ہونا ہے، بے شک اس میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔"
یہ آیت کائنات کے عظیم نظام، انسانوں کی زبانوں اور رنگوں کے مختلف ہونے کو اللہ کی قدرت کے ثبوت کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ملحدین جو ان نشانیوں سے منہ موڑتے ہیں، حقیقت میں وہ عقل کا صحیح استعمال کرنے والے نہیں ہیں۔
ایک ملحد جو کہتا ہے کہ موت کے بعد کچھ نہیں، اسے قرآن چیلنج کرتا ہے کہ زندگی کا وجود خود ایک معجزہ ہے، اور اس کا دوبارہ ہونا بھی ممکن ہے اور پیشی اسی موت و حیات کے مالک کے پاس ہونا ہے۔
آیت : كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّہ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ۖ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ. سورۃ البقرہ (2:28)
ترجمہ: "تم کیسے اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم مردہ تھے اس نے تمہیں زندہ کیا، پھر وہ تمہیں موت دے گا، پھر زندہ کرے گا، پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔"
یہ آیت اللہ کے وجود سے انکار کو غیر منطقی قرار دیتی ہے۔ انسان کی زندگی، موت، اور دوبارہ زندہ ہونا اللہ کی قدرت کے مظاہر ہیں۔ انکار کرنے والوں کو آخرت میں حساب دینا ہوگا۔
اگر کوئی ملحد کہے کہ مردہ ہڈیوں کا دوبارہ زندہ ہونا سائنسی طور پر ناممکن ہے، تو قرآن کہتا ہے کہ تخلیق کا پہلا مرحلہ ہی اتنا معجزانہ ہے کہ دوبارہ تخلیق کوئی مشکل نہیں۔ ملحدین جو دوبارہ زندہ ہونے کے امکان کو رد کرتے ہیں، ان سے قرآن استدلال کرتا ہے کہ جو اللہ پہلی بار تخلیق کر سکتا ہے، وہ دوبارہ بھی کر سکتا ہے۔
آیت : وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَنَسِيَ خَلْقَهُ ۖ قَالَ مَنْ يُحْيِي الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ قُلْ يُحْيِيهَا الَّذِي أَنْشَأَهَا أَوَّلَ مَرَّةٍ ۖ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ. سورۃ یٰسین (78-79)
ترجمہ: "اور اس نے ہمارے لیے ایک مثال بیان کی اور اپنی خلقت و پیدائش کو بھول گیا، کہا: ہڈیوں کو کون زندہ کرے گا جب کہ وہ گل سڑ چکی ہوں؟ کہہ دو: انہیں وہی زندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا، اور وہ ہر طرح کے پیدا کرنے، خلق کرنے سے واقف ہے۔" یعنی جس طرح وہ ماں کے پیٹ سے پہلی مرتبہ پیدا کرنے پر قادر ہیں اسی طرح وہ زمین کے پیٹ سے دوسری مرتبہ بھی پیدا کرنے پر قادر ہے وہ بطن مادر سے پیدا کرنے کے طریقے سے واقف ہے ویسے ہی مٹی اور زمین سے دوبارہ وجود بخشنے پر بھی قدرت رکھتا ہے۔ اس لیے کہ وہ ہر طرح کے پیدا کرنے کا علم رکھتا ہے۔ وَهُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيمٌ.
یہ آیات مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے اور آخرت کا انکار کرنے والوں کے اعتراضات کا جواب دیتی ہیں۔
اگر کوئی ملحد کہے کہ اسے آخرت پر یقین نہیں، تو قرآن خبردار کرتا ہے کہ انکار کے نتائج سنگین ہونگے، جہنم میں گروہ در گروہ کرکے پھینک دیئے جائیں گے، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے بچنا ممکن نہیں۔
آیت : وَسِيقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ جَهَنَّمَ زُمَرًا. سورۃ الزمر (39:71)
ترجمہ: "اور جنہوں نے کفر کیا وہ جہنم کی طرف ہانکے جائیں گے۔"
یہ آیت کفر (جو الحاد کو بھی شامل کرسکتا ہے) کے اخروی نتائج کو بیان کرتی ہے۔ اللہ کے وجود سے انکار کرنے والوں کے لیے آخرت میں کڑی سزا ہے۔
عقل و استدلال کی دعوت:
قرآن بار بار عقل و فہم استعمال کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
ایک ملحد جو سائنس کی بنیاد پر کائنات کی وضاحت کرتا ہے، اسے قرآن کہتا ہے کہ سائنسی قوانین خود ایک ذہین منصوبہ ساز کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ یہ زمین کا سورج سے مناسب فاصلہ زندگی کے لیے کتنا ضروری ہے، اور یہ سارا نظام حیات ایسا ہے جو اتفاق سے ممکن نہیں۔
آیت : إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ... لَآيَاتٍ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ. سورۃ البقرہ (2:164)
ترجمہ: "بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں، رات اور دن کے بدلنے میں، کشتیوں میں جو سمندر میں لوگوں کے نفع کے لیے چلتی ہیں... عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔"
یہ آیت کائنات کے نظام کو اللہ کے وجود کی دلیل کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ملحدین سے عقل استعمال کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے کہ وہ فطرت کے نظام پر غور کریں۔
اگر کوئی ملحد کہے کہ کائنات بغیر کسی خالق کے چل رہی ہے، تو قرآن پوچھتا ہے کہ بغیر کسی ذہین ہستی کے اتنا منظم نظام کیسے قائم رہ سکتا ہے؟ کائنات کو چلانے والا ذہین و فطین ہے اور اکیلا بھی ہے اگر وہ ذہین و فطین نہ ہوتا اور اکیلا نہ ہوتا تو نظام کائنات بگڑ جاتا، ختم ہو جاتا۔
لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّهُ لَفَسَدَتَا ۚ فَسُبْحَانَ اللَّهِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ. سورۃ الانبیاء (21:22)
- ترجمہ: "اگر آسمانوں اور زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو دونوں کا نظام بگڑ جاتا۔ پس پاک ہے اللہ، عرش کا رب، اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔
الحاد کی بڑی اور بنیادی وجہ تکبر و استکبار
قرآن تکبر اور دنیاوی خواہشات کو الحاد کی وجہ قرار دیتا ہے۔ ملحدین اپنی عقل کو حتمی سمجھتے ہیں، وہ اکثر تکبر کا شکار ہوتے ہیں۔ ایک ملحد جو سائنس کو حتمی سچائی سمجھتا ہے اور ماورائی طاقت کو ماننے سے انکار کرتا ہے، اسے قرآن تکبر سے بچنے اور فطرت پر غور کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
سَأَصْرِفُ عَنْ آيَاتِيَ الَّذِينَ يَتَكَبَّرُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَاِنۡ يَّرَوۡا كُلَّ اٰيَةٍ لَّا يُؤۡمِنُوۡا بِهَا ۚ وَاِنۡ يَّرَوۡا سَبِيۡلَ الرُّشۡدِ لَا يَتَّخِذُوۡهُ سَبِيۡلًا ۚ وَّاِنۡ يَّرَوۡا سَبِيۡلَ الۡغَىِّ يَتَّخِذُوۡهُ سَبِيۡلًا ؕ ذٰ لِكَ بِاَنَّهُمۡ كَذَّبُوۡا بِاٰيٰتِنَا وَكَانُوۡا عَنۡهَا غٰفِلِيۡنَ ۞ . سورۃ الاعراف (7:146)
ترجمہ: "میں عنقریب اپنی نشانیوں سے ان لوگوں کو پھیر دوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں، اور وہ اگر ہر طرح کی نشانیاں دیکھ لیں تو ان پر ایمان نہیں لائیں گے۔ اور اگر انہیں ہدایت کا سیدھا راستہ نظر آئے تو اس کو اپنا طریقہ نہیں بنائیں گے، اور اگر گمراہی کا راستہ نظر آجائے تو اس کو اپنا طریقہ بنالیں گے۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا، اور ان سے بالکل بےپرواہ ہوگئے۔"
تکبر اور خود پسندی کو اللہ کی نشانیوں سے منہ موڑنے کی بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے، جس کے سبب وہ ہدایت سے محروم ہو رہے ہیں۔
کفر و الحاد؛ فطرت سے بغاوت اور خود فریبی ہے:
ایک ملحد جو کہتا ہے کہ وہ بچپن سے ایمان پر یقین نہیں رکھتا، اسے یہ حدیث یاد دلاتی ہے کہ اس کی فطرت ایمان کی طرف مائل تھی، لیکن خارجی اثرات نے اسے تبدیل کیا۔ حدیث سنیے
"كل مولود يولد على الفطرة، فأبواه يهودانه أو ينصرانه أو يمجسانه" (صحیح البخاری)
*ترجمہ*: "ہر بچہ فطرت (ایمان) پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بناتے ہیں۔"
یہ حدیث بتاتی ہے کہ انسان کی فطرت اللہ پر ایمان لانے کی طرف مائل ہوتی ہے۔ الحاد یا انکار؛ فطرت کے خلاف ہے اور ماحول یا تربیت سے پیدا ہوتا ہے۔ ملحدین کے لیے یہ دعوت ہے کہ وہ اپنی فطرت پر غور کریں۔
آخری بات
درج بالاآیات اور حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل و شعور عطا کیا ہے تاکہ وہ کائنات کے نظام پر غور کرے اور اپنے رب کی طرف پلٹے۔ ملحدین کے لیے قرآن کی دعوت یہ ہے کہ وہ اپنے تکبر اور خود پسندی کو ترک کریں، اپنی فطرت پر غور کریں، اور اللہ کی نشانیوں کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ یہ محاضرہ اسی دعوت کو پیش کرنے کا ایک ذریعہ ہے کہ انسان اپنے رب کے سامنے سر تسلیم خم کرے اور اس کی ہدایت کو قبول کرے۔
وما علینا الا البلاغ
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں