جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں تعزیتی نشست بر وفات مولانا نذیر احمد ندوی
مؤرخہ 8 اکتوبر 2025ء (15 ربیع الثانی) کو جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سینئر استاذ مولانا نذیر احمد ندوی رحمتہ اللہ علیہ کے وسانحہ ارتحال پر تعزیتی نشست منعقد ہوئی۔ نشست میں جامعہ کے معتمد تعلیمات مولانا جمال ناصر ندوی نے اپنے ابتدائی خطاب میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں مولانا نذیر احمد ندوی سے اپنے استفادہ کے زمانے کا ذکر کیا۔ انہوں نے مولانا مرحوم کے درس کی شیرینی، کثیر لسانی تشریحات، اخلاق کی نرمی اور بلند کردار کی خوبصورتی کو دل نشین انداز میں بیان کیا۔
مہتمم جامعہ مولانا جمال عارف ندوی نے نصف گھنٹے کے اپنے خطاب میں مولانا نذیر احمد ندوی کی زندگی پر روشنی ڈالی، بڑی دلگیر آواز و پردرد کلمات میں آپ کا ذکر خیر کیا۔ آپ نے بتایا کہ مولانا نذیر احمد ندوی ان کے بھی استاد تھے۔ 1991 میں جب وہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے تو مولانا نذیر احمد ندوی رح اپنے عہد شباب میں تھے اور اسی وقت سے عربی ادب کی صلاحیت اور درس و تدریس میں شہرت رکھتے تھے۔ خصوصی اول دوم میں ہم نے آپ سے قصص النبیین پڑھی اور استفادہ کا موقع ملا، اس درجے میں ہندوستانی اور غیر ملکی طلبہ ( ملیشیا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، سوڈان، بنگلہ دیش وغیرہ سے) سے ہوا کرتے تھے، تدریس کی آفیشل زبان عربی تھی لیکن مولانا مرحوم عربی، انگریزی اور اردو تینوں زبانوں کا استعمال کر آسان انداز میں اس طرح پڑھاتے کہ ہر طالب علم مطمئن ہوتا جاتا۔ مولانا نے دوران تدریس بھی اپنا علمی سفر جاری رکھا یہاں تک ڈاکٹریٹ (پی ایچ ڈی) کی ڈگری بھی حاصل کی اور ہندی و فارسی زبان میں بھی مہارس حاصل کی۔ یہ اس درجہ کی تھی کہ ان زبانوں میں وہ بے تکلف گفتگو کرتے اور ایک سے دوسری زبان میں بڑی مہارت سے ترجمہ بھی کرتے۔ مہتمم صاحب نے اپنی گفتگو کا سلسلہ دراز کرتے ہوئے فرمایا کہ مولانا نذیر احمد ندوی رح انتہائی شفیق و مہربان، نرم خو، نرم مزاج، ملنسار اور مہمان نواز تھے۔ طلبہ کو اپنے کمرے میں بلا کر ان کی ضیافت کرتے، خود اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پلاتے جسکا ہمیں ذاتی تجربہ بھی ہے۔ وہ خوبرو، نفیس اور نفاست پسند تھے، عمدہ و نفیس لباس زیب تن فرماتے، چہرے پہ نورانیت، چال ڈھال میں متانت و وقار ہوتا، کبھی آپ کے نوابی خاندان سے ہونے کا گمان ہوتا تھا۔
مولانا نے 1988 سے 2025 تک زندگی کے 37 سال دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تدریس اور طلبہ کی تربیت کے لیے وقف کردیئے۔ انہوں نے اپنی فیملی ندوہ میں نہ رکھ کر تمام تر اوقات طلبہ کی خدمت میں لگائے۔ حتیٰ کہ فجر کے بعد بھی طلبہ ان سے استفادہ کرتے۔ بیماری (شوگر) اور کمزوری کے باوجود وہ آخری دن تک تدریس سے وابستہ رہے اور انتقال کے دن بھی دو پیریڈ پڑھائے، پھر طبیعت بگڑنے لگی تو طلبہ انہیں ان کے کمرے لے آئے، یہاں پہ پہنچ کر طبیعت اور بگڑی تو اسپتال لے جایا گیا جہاں ڈاکٹروں نے ان کی موت کا اعلان کر دیا۔ پوری زندگی درس و تدریس کے لئے ایسی وقف کر دی کہ معلوم ہوتا تھا کہ انہوں نے اپنے رب سے اس کا عہد و پیمان کر رکھا تھا اور اس عہد کے ساتھ وفاداری کرتے ہوئے "شہیدِ راہِ وفا" قرار پائے اور "من المؤمنین رجال صدقوا ما عاهدوا الله عليه فمنهم من قضى نحبه" کے زمرے میں شامل ہو گئے. رحمه الله رحمۃ واسعا.
مولانا نذیر احمد ندوی صاحب کی انشاء پردازی، مضمون نگاری، ترجمہ نگاری اور خطابت کی صلاحیت غیر معمولی تھی۔ جریدۃ الرائد کے مستقل کالم نگار اور مجلس ارادت میں شامل تھے۔
مہتمم جامعہ نے مزید فرمایا کہ 2002 میں حضرت مولانا رابع حسنی ندوی اور حضرت مولانا واضح رشید حسنی ندوی مالیگاؤں تشریف لائے، مولانا علی میاں ندوی لائبریری میں مدعو کیا گیا جو اس وقت مسجد نور الاسلام میں تھی، اس موقع پر ان دونوں ہی بزرگوں نے خطاب کیا، ان کے خطابات قلم بند کرکے ندوے بھیجا جو تعمیر حیات میں شائع ہوئے، یہ مضمون مولانا نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ تک پہنچا اور آپ نے ان کو عربی میں ترجمہ کر کے الرائد میں شائع فرما دیا۔ جب الرائد نظروں سے گزرا تو بڑی خوشگوار حیرت ہوئی، استاد محترم کی یہ شفقت کبھی نہیں بھولے گی۔
مولانا مرحوم اپنے اساتذہ اور بڑوں کی بے حد عزت کرتے، ان کی خدمت میں تواضع سے حاضر ہوتے اور طالبعلمانہ انداز میں بیٹھتے تھے۔
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثلِ ایوانِ سحر مرقد فرُوزاں ہو ترا
نُور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحَد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نَورُستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
آخر میں مہتمم جامعہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ مولانا نذیر احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو ہم جامعہ ابوالحسن علی ندوی مالیگاؤں میں مدعو نہ کر سکے اور صد حیف کہ اب وہ اس جگہ پہنچ چکے ہیں کہ ہم کبھی انہیں بلا کر اپنا یہ چمن دکھا نہیں سکتے بس دعا کرتے ہیں کہ اللہ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول فرما کر انہیں آخرت میں بڑا مقام و مرتبہ عطا فرمائے۔ آمین
اس تعزیتی نشست کا اختتام مولانا محمد اطہر ملی ندوی کی دعا پر ہوا، مفتی حفظ الرحمن قاسمی، مولانا نعیم الرحمن ندوی، مفتی محمد کاظم ندوی، مولانا محمد قاسم ندوی وغیرہ اساتذہ جامعہ ابوالحسن اور تمام طلباء جامعہ نے اس میں شرکت کی۔
نشست کے اختتام پر جامعہ ابوالحسن کے طلبہ و اساتذہ نے سورہ یس اور سورہ اخلاص پڑھ کر آپ کے لیے ایصال ثواب کا اہتمام کیا۔ اللہ تعالیٰ مولانا نذیر احمد ندوی رحمہ اللہ کی تدریسی و علمی خدمات کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے، ان کی قبر کو نور سے بھر دے، اور امتِ مسلمہ اور خصوصا ندوہ کو ان کی شخصیت کا نعم البدل عطا کرے، ان کی شہادت قبول فرمائے اور ان کے درجات بلند کرے۔ آمین
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں