جامعہ ابوالحسن علی ندوی مالیگاؤں کے دوسرے دارالافتاء کا قیام
کل بروز بدھ 10 نومبر 2021ء مطابق 4 ربیع الثانی 1443ھ، بعد نماز عشاء متصلا محلہ گلشن امین مسجد بتول ابراہیم کے پیچھے جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں کے زیر اہتمام دوسرے دارالافتاء کا قیام عمل میں آیا، جس میں جامعہ کے استاذ مفتی حفظ الرحمن اشاعتی قاسمی صاحب فتوی نویسی کی خدمت انجام دیں گے۔ ان شاء اللہ
اسی مناسبت سے افتتاحی پروگرام ہوا جس میں جناب مسعود علی صاحب (ممتا ڈیری) کرسی صدارت پر جلوہ افروز رہے اور نظامت کے فرائض مولانا محمد اطہر ملی ندوی صاحب نے انجام دیئے، اپنے مخصوص ادیبانہ اور شاعرانہ ذوق کے ساتھ سامعین کو آخر تک پروگرام سے مربوط رکھا، موصوف میں ماشاءاللہ کامیاب ناظمِ جلسہ ہونے کے تمام اوصاف موجود ہیں۔ قاری رضوان پریاگی صاحب نے دلنشیں انداز میں تلاوت قرآن مجید کے ذریعے پروگرام کا آغاز کیا۔ جامعہ کے خصوصی ثالث کے طالب علم محمد سہیل نے شاعرِ درد کلیم عاجز کے مشہور نعتیہ اشعار
_____________________
ادب سے پہلے سلام اُن کو اے صبا کہیو!!
پھر اُس کے بعد غریبوں کا ماجرا کہیو!!
کمی نہ کیجیو کچھ اِس میں اپنی جانب سے
گزر رہی ہے جو ہم پر ذرا ذرا کہیو!!
برائے نام ہی جو اُن سے نسبت رکھتے ہیں
اِس ایک جرم کی کیا کیا ملی سزا کہیو!!
دو ایک حادثہ ہوتا تو صبر کر لیتے
بندھا ہوا ہے مصائب کا سلسلہ کہیو!!!
اندھیری شب میں نہیں صُبح کے اُجالے میں
لُٹا ہے اُنکے غلاموں کا قافلہ کہیو!!!
ﺻَﻠَّﯽ ﺍﻟﻠّٰﮧُ ﻋَﻠٰﯽ ﺣَﺒِﯿﺒِﮧ ﺳَّﻴِﺪِﻧَﺎ ﻣُﺤَﻤَّﺪٍ ﻭَّﺍٰﻟِﮧ ﻭَﺳَﻠَّﻢَ
(ڈاکٹــــــر کلیــــم عاجزؔ)
_____________________
پیش کئے، یہ اشعار کیا تھے گویا عالمِ تصور میں روضۂ مبارک پر پہنچا دیئے، جہاں سامعین اپنے درد کا مداوا کررہے ہوں۔ تحریکِ صدارت جامعہ کے انگلش ٹیچر شعیب سر اور تائید مولانا جمال ناصر ندوی صاحبان نے پیش کرتے ہوئے پروگرام کو آگے بڑھایا آیا۔ تقریری سلسلہ کی پہلی کڑی کے طور پر اسی علاقے کے رہائشی جناب پروفیسر ساجد صاحب نے قیامِ دارالافتاء پر اپنے تاثرات پیش کیا، موصوف نے اس علاقے میں دارالافتاء کی ضرورت، فتوی کی نزاکت اور دارالافتاء کی ذمہ داری کو حالات حاضرہ کے پس منظر میں پیش کیا کیا۔ ___ ابتدائی تقریر کے لیے جامعہ کے استاذ مولانا نعیم الرحمن ندوی کو اظہار خیال کی دعوت دی گئی، موصوف نے تمہید میں علم کی فضیلت، حصول علم کی ترغیب کو قرآن و حدیث کی روشنی میں پیش کیا اور ایک اسلامی معاشرے میں مکاتب ، مدارس اور جامعات اور دارالافتاء کے قیام کی ضرورت کو بیان کیا، ساتھ ہی اس سے استفادے کا طریقہ آسان الفاظ میں بتایا، مفتی حفظ الرحمن صاحب کے متعلق کہا کہ موصوف پختہ علمی اور تدریسی صلاحیت رکھتے ہیں، ساتھ ہی اچھے اخلاق و کردار کے حامل ہیں، دو سالہ فتوی نویسی کا تجربہ رکھتے ہیں اور واٹساپ پر تھانوی دارالافتاء اطمینان بخش انداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں، ان دوسالوں میں دیڑھ ہزار سے زیادہ فتاویٰ لکھ چکے ہیں۔ دارالافتاء کا قیام جامعہ کے زیر اہتمام ہو رہا ہے اس کی پس منظر میں کہا کہ جامعہ کے مہتمم و اساتذہ اپنی اصلاحی کوششوں کا دائرہ اسلامی معاشرے کی تمام بنیادی ضروریات کو سامنے رکھتے ہوئے وسیع کیے ہوئے ہیں، جامعہ کے شعبۂ حفظ، شعبۂ عالمیت کے ساتھ علاقے بھر میں مکاتب کا جال بچھا دیا ہے، الحمدللہ فی الوقت مکتب کی 28 کلاسز جاری ہیں جن میں 635 (چھ سو پینتیس) طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں، دارالافتاؤں کی ضرورت و اہمیت کے پیش نظر اس کا سلسلہ بھی دراز ہے، ایک دارالافتاء نور باغ میں جاری ہے جس میں مفتی عامر یاسین ملی، اور مفتی خالد عمر ندوی صاحبان فتوی نویسی کی خدمت سے جڑے ہوئے ہیں اور آج یہ دوسرا دارالافتاء اس علاقے میں قائم کیا جا رہا ہے۔ آخر میں فتوی و استفتاء، مفتی و مستفتی اور دارالافتاء کیا ہیں ان سب کی وضاحت کرتے ہوئے بات مکمل کی۔
اس کے بعد جامعہ ابوالحسن کے مہتمم پروگرام کے مقرر خصوصی حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب دامت برکاتہم کا کلیدی خطاب ہوا۔ آپ کا خطاب بڑا قیمتی رہا، چند اقتباسات پیش ہیں؛
اسلام کے پانچ شعبے ہیں عقائد عبادات معاملات اخلاقیات معاشرت ہر شعبہ اپنی جگہ بڑی اہمیت رکھتا ہے، ہم کو چاہئے کہ ان تمام شعبوں میں اللہ تعالیٰ کے کیا احکام ہیں ان کو معلوم کرکے ان پر عمل کریں۔
ہمارا مذہب دین اسلام ایک ایسا واحد مذہب ہے کہ اس میں ہر ہر مسئلے کا حل اور رہنمائی موجود ہے دنیا کا کوئی اور مذہب ایسا نہیں جس میں ہر گوشے اور ہر شعبے کی مکمل تفصیلات مکمل مسائل موجود ہوں، ہم کو فخر محسوس کرنا چاہیے کہ ہم ایک ایسے مذہب کے ماننے والے ہیں جو عالمگیر مذہب ہے اور یہ ایک معجزہ ہے کہ قیامت تک جو بھی مسائل پیش آئیں گے ان کا حل مذہب اسلام میں ہے، کوئی مسئلہ ایسا نہیں کہ اس کا حل اس کا جواب شریعت میں موجود نہ ہو، خصوصا سائنس و ٹکنولوجی کے اس دور جدید میں پیش آنے والے نت نئے مسائل: میڈیکل سائنس، معاشیات، اقتصادیات، سیاسیات، سماجیات سے متعلق جس طرح کے بھی مسائل آجائیں علماء و مفتیان اس کا حکم واضح کردیتے ہیں۔
قرآن مجید کے اندر قیامت تک آنے والے مسائل کا حل ہے اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس میں تمام مسائل کے ہرہر جزئیہ کو بیان کیا گیا ہے یہ کیسے ممکن ہوگا کہ ایک کتاب میں مکمل مسائل کے جزئیات کو ذکر کردیا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے اصول بیان فرمادئے ہیں، انہیں اصول کی روشنی میں فقہاء، مجتہدین غور وفکر کرکے مسائل مستنبط کرتے ہیں اور واضح فرماتے ہیں۔ جیسے جدید مسائل کے حل کے لیے ہمارے یہاں آل انڈیا فقہ اکیڈمی کا قیام ہے، جس میں نئے پیش آمدہ مسائل میں ملکی سطح پر علماء و مفتیان اکٹھا ہوکر حل کیلئے مذاکرات ہوتے ہیں۔
مولانا نے فرمایا کہ مسائل کے حل کے لیے اور مسلمان اپنی زندگی احکام شرعیہ کے مطابق گزار سکیں دارالافتاء کا قیام ہوتا ہے، اسی دینی ضرورت کی تکمیل کے لیے جامعہ نے یہ عزم کیا ہے کہ شہر کے مختلف پسماندہ علاقوں میں اپنا دارالافتاء قائم کرے۔
آپ نے فرمایا کہ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ لوگ پہلے اپنی مرضی سے حکم شرعی جانے بغیر قدم اٹھا لیتے ہیں پھر جب گاڑی پھنستی ہے معاملہ بگڑتا ہے تو دارالافتاء کا چکر کاٹتے ہیں۔ مثلا پہلے اپنی مرضی سے جس طرح چاہیں طلاق دے دیتے ہیں ہوش ٹھکانے آتا ہے تو دارالافتاء کا چکر کاٹتے ہیں کہ رشتہ نہ ٹوٹے، حالانکہ ہونا یہ چاہئے کہ طلاق دینا ہی ہے تو پہلے مفتی صاحب سے رجوع کر لیں کہ مجھے کس طرح طلاق دینا چاہئے۔ باپ کا انتقال ہوتے ہی دارالافتاء سے رجوع کر لینا چاہئے کہ ترکہ کس طرح تقسیم کرنا ہے، پارٹنر شپ میں کاروبار شروع کرنے سے پہلے معلوم کر لیں کہ اسلامی نقطہ نظر سے پارٹنرشپ کے کون کون سے طریقے جائز ہیں۔ اس سلسلہ میں مسلمانوں کی سوچ بدل جائے اور وہ اپنے معاملات میں کوئی قدم اٹھانے سے پہلے دارالافتاء سے رجوع کر لیں تو ایک بڑا دینی انقلاب آسکتا ہے۔
پھر آپ نے یہ فرمایا کہ ہمیں ان علماء اور مفتیان کی قدر کرنی چاہیے کہ بغیر کسی چارج کے شرعی مسائل بیان کرتے ہیں ورنہ آج کے زمانہ میں بغیر فیس کے نہ کوئی ڈاکٹر دوائیں تجویز کرتا ہے نہ کوئی وکیل قانونی صلاح دیتا ہے۔ consultancy ایک پیشہ ہے، اگر مفتیان کرام بھی فتوی نویسی کے اس کام کی فیس لینا چاہیں تو شرعا لے سکتے ہیں۔
آداب استفتاء کو ذکر کرتے ہوئے ایک اہم ادب بیان کیا کہ سب سے بڑا ادب یہ ہے کہ دارالافتاء کے متعینہ وقت میں سوال پوچھنے کے لیے آئیں بے وقت، بے محل سوال کرنا اچھا نہیں ہے۔
آخر میں سامعین سے فرمایا کہ آپ کے علاقے میں دارالافتاء کا قیام ہوگیا اب آپ کی ذمہ داری ہے کہ اس کو مزید مستحکم بنائیں اور اس کی ہر طرح کی ضروریات کی فکر کریں اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں۔
___________
الحمدللہ پروگرام بہت کامیاب رہا، اتنی دور دراز علاقے میں ہونے کے باوجود علماء، حفاظ، طلبہ اور عوام الناس سے ہر طبقے کے لوگ بڑی تعداد میں شریک رہے، تمام طلبہ اور اساتذۂ جامعہ ابوالحسن، جامعہ کے شعبۂ مکاتب کے جمیع معلمین موجود تھے، محلہ کی مقتدر و سرکردہ شخصیات میں حاجی عبدالرزاق صاحب، ایوب فیضی سر صاحب، افضل ماسٹر صاحب، عبد الماجد قریشی صاحب، رئیس بھائی وغیرہ حضرات بھی بنفس نفیس پروگرام میں دلجمعی سے شریک رہے۔
پروگرام کے آخر میں دارالافتاء میں فتوی کی اجازت اور آغاز کے طور پر مولانا ساجد خان ندوی، مفتی عامر یاسین ملی اور مولانا جمال عارف ندوی حضرات کے ہاتھوں مفتی موصوف کی دستار بندی کی گئی، اور دعا کے ذریعے دارالافتاء کا افتتاح ہوا۔
اللہ پاک اسے ہر اعتبار سے نافع بنائے اور اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت بخشیں۔ آمین یا رب العالمین
شعبۂ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندوی مالیگاؤں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں