بسم اللہ تعالی 
 جامعہ ابوالحسن علی ندوی، مالیگاؤں میں "بزم اقبالیات"

    جامعہ ابوالحسن علی ندوی سال رواں میں اپنی تعلیمی و ثقافتی سرگرمیوں کو انجام دیتے ہوئے نصف سال کو پہنچ رہا ہے، اب ششماہی امتحانات کی تیاری میں سرگرم عمل ہوا چاہتا ہے، آج بروز جمعرات 30 ستمبر 2021ء مطابق 22 صفر المظفر 1443ھ جامعہ ابوالحسن کے شعبۂ جمعیۃ الاصلاح کا چھٹا پروگرام بعنوان "بزم اقبالیات" منعقد ہوا۔

     پروگرام میں حمد و نعت، ترانہ، نظمیں اور تمام تقاریر فکرِ اقبال، کلامِ اقبال، پیامِ اقبال اور حیاتِ اقبال کے گرد گھومتی رہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عشق الٰہی اور عشق رسول، عرفان خدا اور معرفت خودی، بلندئ نگاہ اور سوزِ دل و جاں جو ایک زندہ دل مومن کے بنیادی اوصاف ہیں، یہ سارے اوصاف شاعر مشرق علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے کلام و پیام میں بدرجہ اتم موجود ہیں، طلبہ کے لئے آغاز ہی سے اقبال اور فکرِ اقبال سے آشنائی بہت نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے۔
    پروگرام انتہائی کامیاب رہا اور بقول مہتمم جامعہ؛ طلبہ نے جاندار تیاری کے ساتھ شاندار انداز میں پروگرام پیش کیا، تمام ہی اساتذہ و طلبہ قابل مبارک باد ہیں۔ جزاہم اللہ خیر الجزاء
پروگرام کی روداد مختصراً پیش ہے۔
    یہ "بزم اقبالیات" مہتمم جامعہ مولانا جمال عارف ندوی صاحب کی صدارت میں منعقد ہوئی، نظامت کے فرائض خصوصی اول کے طالب علم حافظ شیخ مجاہد ابن شیخ ضمیر (بساڑ، ضلع بلڈانہ) نے مرتب و منظم انداز میں اپنے شاعرانہ و ادیبانہ ذوق کے ساتھ انجام دیئے۔ خصوصی اول کے طالبعلم حافظ عذیر احمد ابن مولانا عبدالستار ندوی (کولپےواڑی، کوپرگاؤں) نے اپنے پرسوز لہجے میں قرآن پاک کی تلاوت پیش کی، خصوصی ثالث کے محمد سہیل ابن عبدالستار انجینئر نے اپنی مسحور کن آواز میں اقبال کا حمدیہ کلام پیش کیا؛  
خودی کا سِرِّ نہاں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
خودی ہے تیغ، فَساں لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
یہ دَور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
اور 
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حُکمِ اذاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
--------------------------
     خصوصی اول کے طالب علم حافظ سلمان فارسی ابن ریاض احمد نے نعت شریف پیش کی؛
 قوتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے 
 دہر میں اسمِ محمدؐ سے اجالا کر دے 
اور 
 کی محمدؐ سے وفا تو نے، تو ہم تیرے ہیں 
 یہ جہاں چیز ہے کیا؛ لوح و قلم تیرے ہیں 
--------------------------
      نعت خواں طالبعلم نے اپنے ساز و آواز سے محفل میں ایسا سماں باندھا کہ ساری آنکھیں اسے ہی دیکھتی رہیں، کان اسے ہی سنتے رہے اور ذہن و تصورات بھی ادھر ہی کھوئے رہے، اختتام پر مہتمم جامعہ سے نقد انعام بھی پایا، واقعی اس کے مستحق بھی تھے۔ خصوصی ثالث کے طالب علم حافظ محمد نعیم شفیق احمد کی پر زور تحریکِ صدارت اور خصوصی اول کے حافظ محمد حسان ابن عبدالودود کی تائیدِ صدارت کے بعد ناظمِ جلسہ حافظ شیخ مجاہد (بساڑ،ضلع بلڈانہ) نے ایک جامع تمہید پیش کی جس میں انہوں نے علامہ اقبال کی زندگی، ان کی تعلیم و تربیت اور خاندانی پس منظر پر اچھی روشنی ڈالی اور دریا بکوزہ کے مانند اختصار کو ملحوظ رکھتے ہوئے مفید معلومات پیش کی۔
      اس کے بعد طلبہ نے اردو عربی تقاریر پیش کیں، مشہور نظم "کبھی اے نوجواں مسلم" اور "شکوہ ، جوابِ شکوہ" کے اشعار پیش کئے۔ ان کے عناوین بیک نظر ملاحظہ ہو تاکہ اندازہ ہو کہ پروگرام کیسا مفید و مؤثر اور قیمتی رہا۔ تقاریر کے عنوان 
۱) اقبال کا جذبۂ مذہبیت
(حافظ اجود حسان ابن مولانا محمد فاروق ندوی)
 ۲) علامہ اقبال اور ان کا پیغام
(حافظ اسجد کمال ابن مولانا محمد امین ملی)
  ۳) اقبال کا فلسفۂ جہاد
(محمد سمیر ابن شیخ محسن، منجھلے گاؤں، بیڑ)
 ۴) علامہ محمد اقبال
(محمد اسعد ابن ماسٹر عرفان احمد)
 ۵) الدکتور العلامۃ محمد اقبال حیاتہ و ثقافتہ (عربی تقریر)
(ضیاء الرحمن ابن محمد یاسین)
 ۶) نظم "کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے!"
(حافظ اجود حسان۔۔۔ محمد اسعد۔۔۔ حافظ اسجد کمال)
 ۷) شکوہ جواب شکوہ کے 50 اشعار 
(حافظ اجود حسان ابن مولانا محمد فاروق ندوی)

     طلبہ کے پروگرام کے بعد جامعہ کے استاذ مولانا نعیم الرحمن ندوی نے پروگرام کے متعلق اپنے تاثرات اور تنقیدی جائزہ پیش کیا اس کے بعد مہتمم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب خطبۂ صدارت کیلئے تشریف لائے، آپ نے حیات و فکرِ اقبال کے متعلق بڑی قیمتی باتیں بیان فرمائی؛ کہا کہ برصغیر کے علماء کی بڑی تعداد نے اقبال کو "شاعر ملہم" تسلیم کیا ہے اور ان کی شاعری کے بڑے حصہ کو "الہامی شاعری" قرار دیا ہے، جامعہ ابوالحسن جس شخصیت سے منسوب ہے یعنی مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ، انہیں علامہ اقبال سے والہانہ تعلق تھا بلکہ عشق کی حد تک لگاؤ تھا، اسی کا نتیجہ تھا کہ مفکر اسلامؒ نے محض ۱۳/ سال کی عمر میں علامہ اقبال کی مشہور نظم "چاند" کا عربی ترجمہ کیا، اور یہ عربی ترجمہ ایک موقع پر لاہور میں علامہ اقبال کو بذات خود پیش کیا، مفکر اسلام کی اتنی کم عمری میں ایسی ذہانت اور صلاحیت سے علامہ اقبال بڑے متاثر ہوئے، مفکر اسلام کا یہ تعلق صرف یہیں تک نہیں رہا بلکہ آگے چل کر آپ نے عربوں کو کلام و پیامِ اقبال سے متعارف کروایا اور بیش بہا کتاب "روائع اقبال" آپ ہی کے قلم گہربار سے نکلی، "روائع اقبال" میں کلام اقبال کی ترجمانی عربی نثر میں ہے لیکن اسلوب ایسا دل آویز و پرکشش، ہم وزن الفاظ و کلمات اور مترادفات کا ایسا انتخاب اور سلاست و روانی ایسی ہے کہ پڑھنے والوں کو نثر میں نظم کا مزہ آتا ہے۔ خود عربوں کا تاثر رہا ہے کہ "اس کتاب سے ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہماری کوئی متاع گمشدہ ہمیں ہاتھ آئی ہے۔"
     مہتمم صاحب نے "روائع اقبال" کے وجود میں آنے کا دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے، شیخ علی طنطاوی عالم عرب کے معروف و مقبول ادیب گزرے ہیں، انہوں نے ایک مرتبہ مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام ایک کھلا خط لکھا، جس میں انہوں نے یہ بات کہی کہ بنگالی شاعر رابندر ناتھ ٹیگور کی بنگالی شاعری کو عربی میں منتقل کیا گیا جس سے عالم عرب واقف ہورہا ہے لیکن فارسی اور اردو کے عظیم اسلامی شاعر علامہ اقبال کی شاعری اور ان کا تعارف عالم عرب میں جیسے ہونا چاہیے ویسے اب تک نہیں ہو سکا ہے، اور کہا کہ "میں علامہ ابو الحسن علی ندوی سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ اقبال پر قلم اٹھائیں اور عالم عرب کو کلام اقبال سے متعارف کروائیں۔" جب یہ کھلا خط عربی رسائل میں چھپ کر مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ تک پہونچا تو آپ نے اسی وقت اقبال کے متعلق لکھنے کا عزم کرلیا اور پھر اس کے بعد صرف یہی ایک کتاب نہیں بلکہ اور بھی متعدد مضامین وجود میں آئے۔

    اس کے بعد مہتمم جامعہ نے کلام اقبال سے ذاتی وابستگی کو بڑے مؤثر انداز میں بیان کیا، اور ۱۹۳۵ء میں لکھا گیا "ساقی نامہ" جو خلافت عثمانیہ کے خاتمے، کمال اتاترک کی چیرہ دستیوں اور امت مسلمہ کی پریشاں حالی کے پس منظر میں لکھا گیا تھا اس کے اشعار پڑھ کر سنائے، اسی طرح "روحِ ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے" اس نظم کو سنایا، ساتھ ساتھ اس کی آسان و دلنواز تشریح بھی کرتے رہے۔ جب آپ نے بات ختم کی تو جادو ٹوٹا اور گویا زبان حال سے سامعین سے کہا جارہا تھا؛ 
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا 
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے  
ایسی مجلسوں کے لئے مفکر اسلامؒ کے پسندیدہ شعر پر اپنی بات ختم کی؛
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی
تُو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن، اپنا تو بن
من کی دنیا! من کی دنیا سوز و مستی، جذب و شوق
تن کی دنیا! تن کی دنیا سُود و سودا، مکر و فن
من کی دولت ہاتھ آتی ہے تو پھر جاتی نہیں
تن کی دولت چھاؤں ہے، آتا ہے دَھَن جاتا ہے دَھَن
من کی دنیا میں نہ پایا میں نے افرنگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے مَیں نے شیخ و برہَمن
پانی پانی کر گئی مجھ کو قلندر کی یہ بات
تُو جھُکا جب غیر کے آگے، نہ من تیرا نہ تن

آپ ہی کی دعا پر بزم کا اختتام ہوا۔ والحمد للہ علی ذلک 

روداد نگار: نعیم الرحمن ندوی 
استاذ جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جامعہ ابوالحسن علی ندوی مالیگاؤں میں ثقافتی پروگرام بعنوان علم اور اہل علم کا مقام

جامعہ ابو الحسن مالیگاؤں میں سہ روزہ تربیتی اور تعارفی نشست

جامعہ ابو الحسن میں بزم خطابت کا تیسرا پروگرام بعنوان "اسلامی عبادتیں اور تہذیب نفس"