__ فن تدریس کی روشنی میں اہم نکتہ __
✍ نعیم الرحمن ملی ندوی
(استاذ جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں)
فن تدریس میں قدیم و جدید مروجہ طریقہائے تدریس کا جائزہ لیا جاتا ہے تو ایک طویل فہرست ہمارے سامنے آتی ہے۔ استاذ مرکوز طریقے ۱۳/، اور طلبہ مرکوز طریقے ۹/ ہیں۔ کامیاب مدرس اور معلم کیلئے ضروری ہے کہ ہر موضوع اور اس سے متعلق مطلوب صلاحیت کو سامنے رکھ کر متعدد طریقۂ تدریس اپنائے بلکہ ایک ہی سبجیکٹ پڑھاتے ہوئے کئی طریقوں کو اپنائے۔
ایک ہی طریقہ چاہے وہ اپنے آپ میں کتنا ہی مفید و مؤثر ہو لیکن ہر کتاب، ہر کلاس اور ہر طالبعلم کیلئے یکساں مفید ہو ضروری نہیں، طلبہ مرکوز کچھ طریقے ایسے ہیں جو ان طلبہ کیلئے زیادہ مفید ہیں جن میں دو باتیں ہوں، ایک؛ وہ مسلسل محنت کے عادی ہوں اور دوسرے؛ ذہانت میں تھوڑا ممتاز ہوں، وہ طلبہ جو عام ذہنی صلاحیت والے ہیں اور زیادہ محنت کے عادی نہیں ہوتے ان طریقوں سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکتے، ایسے طلبہ کو ان طریقوں سے جلد وحشت ہوجاتی ہے، یہ ایک فطری چیز ہے۔ ہر ذہن اور ہر استعداد کے طلبہ درس سے مستفیض ہوں اس کیلئے ضروری ہے کہ ایک ساتھ دوسرے کئی آسان طریقہ تدریس بھی اپنائے جائیں۔ اسی لئے کامیاب تدریس میں بیک وقت کلاس کے عمومی ماحول، طلبہ کی عام استعداد، کتاب کے فن اور فن سے مطلوب صلاحیتیں ؛ ساری چیزیں سامنے رکھنا ہوتی ہیں۔
اساتذہ کیلئے ضروری ہے کہ ہر طالبعلم کیلئے ممکن بنائے کہ وہ درس سے زیادہ سے زیادہ اکتساب کرے، اس غرض سے بیک وقت متعدد طرق تدریس کو اپنانا لازمی ہوگا۔ مہتمم جامعہ ابوالحسن کی طرف سے اساتذۂ جامعہ کو اپنے کم استعداد طلبہ یا وہ طلبہ جو تاخیر سے داخلہ لے سکے، انکے لئے خاص میتھڈ "Personalized Instruction... ون بائے ون پڑھانا" اپنانے کی تاکید کی جاتی ہے۔
یہ کیسا طریقہ ہے؟
(Personalized learning, individualized instruction, personal learning environment.
خصوصی انفرادی تعلیم ، انفرادی طور پر سیکھنے کا ماحول)
اسے "کوچنگ کلاس میتھڈ" بھی کہہ سکتے ہیں، اس طریقے سے دو ایک مہینے ہی میں طالبعلم دوسرے طلبہ کے مساوی ہوجاتا ہے، خصوصی اول کے دو طلبہ حافظ شیخ مجاہد ابن شیخ ضمیر (بساڑ، ضلع بلڈانہ) اور حافظ عذیر احمد ابن مولانا عبدالستار ندوی (کولپےواڑی، کوپرگاؤں) اس کی تازہ مثال ہیں، اول الذکر قریب دو مہینے اور مؤخر الذکر تین مہینے تاخیر سے داخلہ لے سکے لیکن مذکورہ بالا میتھڈ سے "خصوصی توجہ خصوصی محنت" کی بنیاد پر چند ہفتوں میں دونوں طلبہ پہلے دن سے شریک طلبہ کے ہم سبق ہوگئے اور اب پوری تیاری اور پورے اعتماد سے ششماہی امتحان میں شریک ہو رہے ہیں۔
جامعہ ابوالحسن میں جدید طریقہائے تدریس کے ساتھ "جدید وسائلِ تدریس" کو اپنانے کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ مہتمم جامعہ کی طرف سے اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے، راقم الحروف کا ذاتی *پروجیکٹر سسٹم* ہے، راقم نے متعدد مرتبہ جامعہ کے طلبہ، اساتذہ کے درمیان استعمال کیا، اپنی پیشکش کو PPT, PDF کی شکل میں پروجیکٹر کے ذریعے اسکرین پر پیش کیا جسے ان حضرات نے پسند بھی کیا اور سراہا بھی۔
اسی کے ساتھ اہم بات یہ بھی ہے کہ مذکورہ طریقے اپنانے کے علاوہ بھی اس بات کی پوری گنجائش موجود ہے کہ استاذ اپنا کوئی نیا، منفرد مفید و مؤثر طریقہ اپنائے۔
آخر میں لیکچرار *پروفیسر سید امان عبید* کے اس جملے پر بات سمیٹتا ہوں کہ "تمام قدیم و جدید طریقہ ہائے تدریس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بات کی گنجائش ہیکہ ہم اپنے گرد و پیش کے اعتبار سے اپنا کوئی نیا / اختراعی طریقۂ تدریس اپنائیں، جسے ایک چینی کہاوت میں پیش کیا گیا ہے؛
*A thousand teachers a thousand methods.*
*ایک ہزار اساتذہ، ایک ہزار طریقے*
______________
کس فن سے کن صلاحیتوں کا حصول مطلوب ہے درج ذیل پیراگراف اس کی وضاحت میں مفید و معاون ہوگا۔ ان شاء اللہ
*مختلف فنون سے مطلوب صلاحیتیں :*
*زبان و ادب :*
زبان و ادب میں ادبی کتابوں کے علاوہ نحو و صرف، انشاء و تعبیر کی تمام کتابیں شمار کی جائے گی، ان کتابوں سے جو صلاحیتیں مطلوب ہیں وہ بالعموم چار ہیں جنہیں زبان و ادب کی چار مہارتیں کہا جا سکتا ہے۔ سننا، بولنا، پڑھنا، لکھنا جن کو ماہرین تعلیم .....
L.S.R.W. Skills (Listening, Speaking, Reading And Writing)
...... سے تعبیر کرتے ہیں۔ یعنی مطلوبہ زبانیں اردو، عربی، انگریزی میں بولنا، پڑھنا اور لکھنا آجائے اور سنتے ہی سمجھ لینے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔
اچھا بولنے اور اچھا لکھنے کیلئے طالبعلم میں اچھا سننے اور اچھا پڑھنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوگا یعنی سننا اور پڑھنا سمجھ کر ہوگا تب اچھی تقریر اور اچھی تحریر کی صلاحیت پیدا ہوگی جسے شورش کاشمیری نے فن خطابت میں کہا ہے کہ "اچھا سامع ہی اچھا مقرر بن سکتا ہےـ"
*Good listener is good speaker.*
*ترجمہ و تفسیر قرآن :*
طالب علم اتنی عربی زبان و قواعد سے آگاہ ہوجائے کہ بآسانی قرآن کریم کا ترجمہ کرسکے اور راجح تفسير سے واقف ہوجائے، مشہور تفاسیر، ان کے مزاج و مذاق اور ان کے مصنفین کے کوائف سے آگاہ ہو۔ ساتھ ہی کلام الٰہی میں زبان و بیان کے حجاب کی رکاوٹ کو عبور کرتا ہوا براہ راست تدبر کرسکے۔ مذکورہ صلاحیت درجہ سوم سے اعلیٰ درجات تک درجہ بدرجہ پیدا کرنا مقصود ہے۔
*حدیث و سنت :*
حدیث پڑھتے ہوئے راست حدیث فہمی کی صلاحیت پیدا ہوجائے، فن حدیث سے اس درجہ شغف ہو کہ نبوی تربیتی رہنمائی ہو، زندگی میں اصلاحی انقلاب آئے، سیرت و کردار میں تبدیلی ہو، احادیث سے شرعی و فقہی رہنمائی بھی حاصل کرنے کی صلاحیت پیدا ہو۔
*فقہ و فتاویٰ :*
قرآن و حدیث کے دلائل کا استحضار اور بیان کردہ عقلی دلائل کے ذریعے شریعت کا مطابقِ عقل ہونا سمجھ لے۔ مسائل کے بیان میں عوام کی دینی رہنمائی کا فریضہ انجام دے سکے۔ اور موجودہ حالات میں درپیش نئے مسائل کا حل ڈھونڈنے کی اہلیت پیدا ہو۔
________________________
مذکورہ بالا باتوں سے واضح ہوتا ہے کہ ہر فن سے مطلوب صلاحیت مختلف ہے اس لئے ہر موضوع اور ہر کتاب کیلئے کوئی بھی ایک طریقہ مؤثر نہیں ہوسکتا، کامیاب مدرس میں وہ ہنر ہوتا ہے کہ وہ فن اور درجے سے ہم آہنگ، طلبہ کی استعداد کے مطابق مفید و مؤثر طریقے منتخب کرتا ہے۔
اللہ کے رسول ﷺ کی معلمی و مدرسی بھی اپنے آپ میں کامل ہے، اس میں ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے، آپ ﷺ نے اپنے زمانے کے اعتبار سے بلیغ ترین طریقے اور مؤثر ترین وسائلِ تعلیم کو اپنایا ہے، ساتھ ہی آپ ﷺ کی تعلیم و تدریس میں تنوع بھی پایا جاتا تھا۔ غور و فکر کرنے والوں کیلئے آج بھی اس میں رہنمائی کا سامان موجود ہے۔
اس نقطۂ نظر سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقۂ تدریس کا مختصر سا جائزہ بھی مفید ہوگا۔
(۱) نبی ﷺ ایک معلم
(۲) جامعہ کی نصابی کتابوں میں جدید طریقے اپنانے کی کوشش
دونوں کتابچے پی ڈی ایف میں ملاحظہ فرمائیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں