بزم ثقافت کا افتتاحی پروگرام
مورخہ 24 شوال المکرم 1443ھ مطابق 26 مئی 2022ء بروز جمعرات نئے تعلیمی سال میں جامعہ ابوالحسن علی ندوی کی بزم ثقافت کا افتتاحی پروگرام جامعہ کے کانفرنس ہال میں منعقد ہوا۔
قدیم و جدید طلبہ نے قرأت، نعت اور تقاریر میں حصہ لیا۔ اس کے بعد اساتذۂ کرام میں مولانا محمد اطہر ندوی (رئیس اللجنة الثقافية) نے ثقافتی پروگراموں کی غرض و غایت اور تعارف بیان کیا۔ سال گذشتہ کے قدیم طلبہ کی نمایاں کارکردگی کا مؤثر جائزہ پیش کیا اور اس ضمن میں نئے طلبہ کو خوب شوق و رغبت دلائی۔
النادی العربی:
اس سال جامعہ کے ثقافتی پروگراموں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ عربی تقریروں کے لیے "النادی العربی " اور اردو تقریر و خطابت کے لیے "بزم خطابت" دو شعبے بنائے گئے۔ النادی العربی کے لیے جامعہ کے مؤقر استاذ مفتی محمد کاظم ملی ندوی صاحب کو ذمہ دار بنایا گیا۔ مفتی صاحب معہد ملت کے مایہ ناز استادِ ادب عربی حضرت مولانا اشتیاق ضمیر ملی ندوی صاحب کے لائق و فائق فرزند ہیں۔ مفتی صاحب کی عربی تحریر و تکلم میں پختہ صلاحیت و استعداد پیدا کرنے میں حضرت مولانا کی خصوصی توجہات صَرف ہوئیں۔ جس کے سبب تکلم اور تحریر دونوں میں ان کے اندر نمایاں ترقی اور امتیاز پیدا ہوا۔ اس " النادی العربی" کے افتتاح کے لئے مفتی صاحب کو عربی زبان میں طلبہ سے خطاب کرنے کے لئے مدعو کیا گیا۔ ماشاء اللہ مفتی صاحب نے بھرپور استعداد اور صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔ طلبہ بھی ہمہ تن گوش انہیں سننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے رہے۔ بعدازاں مولانا محمد اطہر ندوی صاحب صاحب ان کی عربی خطابت کے اہم نکات کو جدید طلبہ کے لئے اردو زبان میں پیش کیا۔
مہتمم جامعہ کی اہم ہدایات :
آخر میں مہتمم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی دامت برکاتہم نے ثقافتی پروگراموں کی ضرورت و اہمیت اور اغراض و مقاصد پر سیر حاصل گفتگو کی۔ آپ نے جو اہم بات فرمائی وہ یہ ہے کہ طلبہ ثقافتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں لیکن تعلیمی سرگرمیاں کسی درجہ میں بھی متاثر نہ ہونے پائے اس کا پورا خیال رہے۔ تمام تر تعلیمی انہماک کے ساتھ الگ سے وقت نکال کر، بچا کر، چرا کر ان ثقافتی پروگراموں کی تیاری کریں۔ ہمیں طلبہ میں جہاں داعیانہ صلاحیت پیدا کرنا مقصود ہے وہیں علمی استعداد میں پختگی اور کتابی صلاحیتوں میں خصوصی درک بھی مطلوب ہے۔ ہم اس کی اجازت نہیں دیں گے کہ تعلیم کا نقصان کرتے ہوئے تقریر و خطابت میں دلچسپی لیں۔ بات مکمل کرتے ہوئے خطابت کی ذمہ داری اور اصلاح معاشرہ میں اس کے کردار پر اپنے ذاتی واقعات کا مختصر اور مؤثر ذکر کیا جس سے طلبہ اور اساتذہ میں ثقافتی پروگراموں کی افادیت کا احساس مزید جاگا اور طلبہ میں تقریر و خطابت کے تئیں نیا جوش و خروش پیدا ہوا۔
ش۔ن۔الف
جامعہ ابوالحسن علی ندوی
دیانہ، مالیگاؤں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں