عظیم الشان مسابقۂ نعت النبی ﷺ
جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں
عظیم الشان مسابقۂ نعت النبی ﷺ
✍ نعیم الرحمن ندوی
بروز جمعرات مؤرخہ 21/ جولائی 2022ء مطابق 21/ ذی الحجہ 1443ھ، بزم ثقافت جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں کے زیر اہتمام طلبۂ جامعہ کے مابین عظیم الشان مسابقۂ نعت النبی ﷺ کا انعقاد ہوا۔
اسمعیل میرٹھی صاحب نے کہا ہے ؛
محمدؐ کی محبت دینِ حق کی شرطِ اول ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو ایماں نامکمل ہے
یہی عشقِ نبیؐ ہے جس سے دین و ایمان نہ صرف مکمل ہوتا ہے بلکہ اس کے زندہ اور باقی رہنے کی ضمانت بھی ہے۔ ذات نبیؐ سے یہی محبت تھی، عشق تھا کہ صحابہؓ نے اپنی جانوں کا نذرانہ نبیؐ کے قدموں پر پیش کر دیا اور دین کی بقا کا سامان کر گئے۔ جنگ احد میں نبی علیہ الصلاۃ والسلام کی ایک پکار پر کہ "کون مجھ پر جان دیتا ہے؟" زیادہ بن سکنؓ پانچ انصاری صحابہ کو لے کر دشمنوں کے سامنے کھڑے ہوئے اور لڑتے ہوئے ایک ایک کر کے سبھی شہید ہوگئے۔ جب ان کا مبارک لاشہ نبی علیہ السلام کے پاس لایا گیا تو آخری سانسوں کی بچی قوت کو مجتمع کرتے ہیں اور اپنے منھ کو نبی کے قدموں پر رکھ کر جان جانِ آفریں کے سپرد کر دیتے ہیں۔
بچہ ناز رفتہ باشد زجہاں نیاز مندے
کہ بوقتِ جاں سپردن بسرش رسیدہ باشد
آپؐ کا نیازمند اس شان سے دنیا سے رخصت ہوا کہ جان دیتے وقت اس کا سر آپؐ کے قدم مبارک تک پہنچ گیا۔
عشق نبوی میں مرد صحابہ ہی نہیں خاتون صحابیات بھی آگے رہیں۔ اسی جنگ احد میں ایک خاتون صحابیہؓ کے باپ، بھائی، شوہر سب شہید ہو گئے، اس کے باوجود نگاہیں بڑھ بڑھ کر نبی علیہ السلام کو تلاش کر رہی تھیں، جھوٹی خبر مدینہ پہنچی تھی کہ نبی علیہ السلام شہید ہوگئے اس لیے دیکھے بغیر دل کو قرار کیسے آتا! آخر نبیؐ کو آنکھوں سے دیکھا تو دلِ ناصبور کو صبر و قرار آیا اور اپنے تمام غموں اور دکھوں کو ان الفاظ میں سمیٹ کر پَرے اٹھا دیا "کل مصیبۃ بعدک جلل یا رسول اللہ!" اے اللہ کے رسول! آپ کے سہارے سارے دکھ جھیلنا، زندگی کے سارے درد سہنا آسان ہے۔ آپ کے ہوتے ہوئے ساری مصیبتیں ہیچ ہیں۔
میں بھی اور باپ بھی، شوہر بھی برادر بھی فدا
اے شہ دیں! ترے ہوتے ہوئے کیا چیز ہیں ہم
آپؐ سے وفا کرنا یہ مسلمانوں کا شیوہ رہا ہے، ضرورت پڑنے پر حرمتِ رسولؐ کی خاطر سب کچھ قربان کردینا، جانیں فدا کردینا یہ صحابہؓ کی سنہری تاریخ رہی ہے۔
نصابِ دیں کا پہلا باب :
یہی عشقِ رسول ﷺ نصابِ دیں کا بنیادی سبق بھی ہے، کسی نے کیا خوب کہا ہے ؛
نصابِ دیں کا پہلا باب ہی عشقِ رسالت ہے
مقامِ مصطفیؐ سے ہے ، جہاں کو آشنا کرنا
دلوں میں محبتِ رسول ؐ کی شمع روشن کرنے ، چراغِ مصطفوی کی لَو بڑھانے میں نعتِ رسولؐ ﷺ کا کردار بنیادی رہا ہے۔ اسی غرض و مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مسابقہ رکھا گیا۔ مسابقہ میں طلبہ نے بڑے جوش و خروش ، ولولے و امنگ سے حصہ لیا، دلوں کو موہ لینے والے انداز و اسلوب میں پیشکش ہوئیں۔
پروگرام کا آغاز :
پروگرام کا آغاز خصوصی اول کے طالبعلم حافظ عبدالعزيز کی پرسوز تلاوتِ قرآن سے ہوا۔ حافظ محمد اسعد و حافظ شیخ عزیر کی تحریک و تائید صدارت سے اور مہتم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب دامت برکاتہم کی صدارت و سیادت میں پروگرام آگے بڑھا۔ میزان عدل پر جلوہ افروز حکم صاحبان جامعہ ہی کے مؤقر اساتذہ مولانا جمال ناصر ندوی اور راقم الحروف (نعیم الرحمن ندوی) تھے۔ نظامت کے فرائض خصوصی ثانی کے طالبعلم حافظ اجود حسان نے انجام دیئے ، بڑے پُر اعتماد ہوکر نظامت کی ، بروقت و برموقع اشعار پیش کرتے رہے اور نقد و تبصرہ بھی ہوتا رہا۔
نعت النبی ﷺ کے مضامین :
نعت النبیؐ کے مضامین؛ سیرتِ طیبہ اور عہدِ جاہلیت پر آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی اثر اندازی و انقلاب انگیزی پر محیط تھے۔ مدح و نعت کے پیرائے میں اپنے پاکیزہ جذباتِ عشق و محبت کا اظہار بھی ہورہا تھا ساتھ ہی گستاخانِ رسولؐ کے جوابات بھی دیئے جارہے تھے۔ کچھ عالمِ تصور میں مدینہ کا سفر کر رہے تھے، کچھ یوں محسوس ہوا جیسے در رسولؐ پر پہنچ کر روضۂ مصطفی کی جالی سے چمٹ کر نعت النبی ﷺ گنگنا رہے ہیں ، کچھ اس سبز گنبد والے ﷺ کی تعلیمات اور معاشرے کی صنف نازک کے حقوق پر آپؐ کے عظیم احسانات کا تذکرہ کر رہے تھے۔ کچھ نعت خوانوں نے تو بڑے پر کیف انداز میں سرکار دو عالمؐ کی اس عالمِ فانی میں آمد باسعادت کے خوبصورت مناظر اور روح پرور ماحول کو پیش کیا اور کچھ نے تو اپنے آواز کا جادو ایسا جگایا اور سامعین کے احساس و وجدان پر ایسا چھائے کہ ہال کے تمام سامعین ان کے ہم نوا و ہم آواز ہو کر بے اختیار گنگنا اٹھے۔
ممتاز نعت خواں طلبہ اور امتیازی انعام :
نعت النبی ﷺ کے اس بابرکت و بامقصد مسابقہ میں سبھی طلبہ سے بہت اچھی پیش کش ہوئیں ، لیکن انعام کے حقدار ممتاز طلبہ ہی ہوا کرتے ہیں۔ ان میں اول انعام کے حقدار خصوصی ثانی کے طالبعلم حافظ اجود حسان قرار پائے۔
انہوں نے مشہور و مقبول نعت پیش کی ؛
سحر کا وقت تھا معصوم کلیاں مسکراتی تھیں
ہوائیں خیر مقدم کے ترانے گنگناتی تھیں
ابھی جبریل اترے بھی نہ تھے کعبے کے منبر سے
کہ اتنے میں صدا آئی یہ عبداللہ کے گھر سے
مبارک ہو شہِ ہر دو سرا تشریف لے آئے
مبارک ہو محمد مصطفٰے تشریف لے آئے
مولاي صل وسلم دائما ابدا
على حبيبك خير الخلق كلهم
کے اشعار بڑے دل پذیر آواز و انداز میں گنگنائے اور سارے نعت خوانوں پر فوقیت حاصل کرگئے۔
دوم انعام خصوصی ثالث کے طالب علم حافظ اسجد کمال نے حاصل کیا۔ موصوف کے نعتیہ اشعار میں سے چند یہ ہیں۔ جنہیں بہت ڈوب کر اور جذب و کیف کے تاثر کے ساتھ پیش کیا ؛
فخرِ رسل ہیں، نازشِ دوراں حضور ہیں
اوجِ کمالِ عظمتِ انساں حضور ہیں
فکر و نظر کا مہرِ درخشاں حضور ہیں
قرآں سے یہ حقیقتِ کبریٰ ہوئی عیاں
ہم پر خدائے پاک کا احساں حضور ہیں
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
عربی اول کے طالبعلم حافظ محمد عفان سوم انعام کے مستحق قرار پائے۔ جنہوں نے سارے اہلِ مجلس پر سحر طاری کردیا ، طلبہ اساتذہ سبھی ساکت و صامت ہوکر انہیں سنتے اور سر دھنتے رہے۔ ان کی نعت کے چند مصرعے پیش ہیں ؛
حبیبِ خدا آپ ہیں، رسولِ خدا آپ ہیں
تیرا رتبہ کیا ہے نہیں جانتے ہیں
مگر اتنا ایمان سے مانتے ہیں
حبیبِ خدا آپ ہیں، رسولِ خدا آپ ہیں
ہے واللیل زلفیں، ہے والشمس چہرہ
ہے رشکِ گلستاں، ترے دم سے صحراء
چمکتے ہوئے چاند، سورج، ستارے
منور ہوئے ہیں ترے دم سے سارے
تینوں انعام یافتہ نعتیں یوٹیوب پر سماعت فرمائیں۔ لنک
https://youtu.be/sIwNvF7CsjA
_____________________
خطبہ صدارت :
اخیر میں صدر موصوف مولانا جمال عارف ندوی صاحب دامت برکاتہم کو مدعو کیا گیا۔ مسابقہ میں از اول تا آخر آپ کی شرکت رہی۔ آپ نے خطبہ صدارت میں نعت گوئی اور نعت گو صحابہ جنہیں شعراء الرسول کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ان کی دلچسپ تاریخ بیان فرمائی۔ کعب بن زہیرؓ کا قبولِ اسلام اور "قصیدۂ بردہ" کی تفصیل مؤثر انداز میں بتائی۔
اپنے خطاب کے دوران آپ نے کہا کہ نعت گوئی وہ فن ہے جس کی حوصلہ افزائی بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی ہے۔ آپ ﷺ نے کعب بن زہیرؓ کو نعتیہ قصیدہ پڑھنے پر اپنی چادر مبارک عنایت فرمائیں، جسے "قصیدۂ بردہ" کا نام دیا گیا۔ اسی طرح نبی ﷺ حضرت حسان بن ثابتؓ کے لیے مسجد نبوی میں منبرِ رسول لگواتے اور حضرت حسان بن ثابتؓ آپ کی موجودگی میں منبر پر بیٹھتے، نعتیہ اشعار کہتے اور مشرکین کی ہجو کا جواب دیتے۔
اتنا ہی نہیں بلکہ خود خالقِ کائنات بھی اپنے محبوب کی تعریف اور مدح و ثنا میں رطب اللسان ہے، قرآن مجید کی متعدد آیات ہیں جن میں آپ ﷺ کے اوصافِ جمیلہ کو بیان کیا گیا ہے جس کا جلی عنوان ہے " إنك لعلیٰ خلق عظیم "
نعت گوئی کا کوئی حق ادا نہیں کرسکتا، کہاں سے وہ الفاظ لائیں جن سے نبی علیہ السلام کی مدح و توصیف کا حق ادا ہو سکے۔ اور کوئی اس کا دعوی بھی نہیں کر سکتا۔ اس حقیقت کا اظہار ہمارے معہد ملت کے سابق استاد حضرت مولانا یاسین ذوق اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ایک نعتیہ کلام کے مطلع میں فرمایا ؛
کروں کیا میں توصیف، امی نبی کی
شکایت ہے مجھ کو، تہی دامنی کی
آخر میں آپ نے یہ کہتے ہوئے کہ __ چاہتا ہوں اس مبارک نعتیہ مجلس کا میں بھی حصہ بنوں اور اپنا نام بھی مدّاحینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں درج کراؤں، میں بھی ایک نعت پڑھنا چاہوں گا گرچہ میں کوئی نعت خواں نہیں ہو نہ ہی شاعر ہوں کہ میرا اپنا کلام ہو۔ __ آپ نے اس نعت کا انتخاب کیوں کیا؟ اس نعت کو آپ بار بار سنا کرتے تھے تاآنکہ یہ نعت آپ کے حافظہ پر ثبت ہو گئی اسے آپ نے بڑے جذباتی ہوکر بیان فرمایا۔ __ مدینہ طیبہ کے اپنے سفر کی کچھ پر تاثیر روداد بھی بیان فرمائی۔ اس کے بعد نعت سنائی اور طلبہ کی سطحِ سخن فہمی کو ملحوظ رکھتے ہوئے درمیان میں آسان تشریح بھی کرتے رہے۔ نعت کے چند اشعار پیش ہیں۔ مکمل بیان اور نعت یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دیا گیا ہے۔ لنک
https://youtu.be/WiNq4gYymRo
مدینے کا سفر ہے اور میں نم دیدہ نم دیدہ
جبیں افسردہ افسردہ ، قدم لغزیدہ لغزیدہ
چلا ہوں ایک مجرم کی طرح میں جانبِ طیبہ
نظر شرمندہ شرمندہ ، بدن لرزیدہ لرزیدہ
کسی کے ہاتھ نے مجھ کو سہارا دے دیا ورنہ
کہاں میں اور کہاں یہ راستے ، پیچیدہ پیچیدہ
_____________________
اخیر میں ممنون و مشکور ہیں اس مسابقۂ نعت النبی ﷺ کو منظم و مرتب کرنے والے بزم ثقافت جامعہ ابوالحسن کے صدر، رفیق تدریس مولانا محمد اطہر ندوی صاحب کے کہ انہوں نے اس مسابقہ میں اپنے مفوضہ کام کو بڑی خیر و خوبی سے انجام دیئے۔ فجزاہ الله خیر الجزاء
شعبہ نشرواشاعت
جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں