جامعہ ابوالحسن میں تعزیتی نشست بر وصال مولانا سید محمود حسن حسنی ندویؒ



   بروز سنیچر مؤرخہ ۱۴؍محرم الحرام ۱۴۴۴ھ مطابق ۱۳؍اگست ۲۰۲۲ء ساڑھے بارہ بجے جامعہ ابوالحسن علی ندویؒ ، مالیگاؤں میں حضرت مولانا سید محمود حسن حسنی ندوی کےوصالِ پر ملال کی مناسبت سےتعزیتی نشست کا انعقاد ہوا۔ 

       تلاوتِ قرآن کے بعد مہتممِ جامعہ کا مختصر خطاب ہوا اور آخر میں مرحوم کے لیے ایصالِ ثواب کا اہتمام کیا گیا۔
       تعزیتی بیان میں مہتممِ جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب دامت برکاتہم نے مولانا مرحوم کے متعلق اہم باتیں بیان فرماتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا سید محمودحسن حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ اُسی خانوادے کے چشم و چراغ تھے جس کے گلِ سرسبدمفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ، اصلاح و تجدید کے امام ، امیر المؤمنین حضرت سید احمد شہیدؒ اور متبع سنت ، جامع شریعت و طریقت حضرت شاہ علم اللہؒ ہیں۔

        مولانا مرحومؒ، ناظم ندوۃ العلماء لکھنؤ حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کےبڑے بھائی مولانا سید محمد ثانیؒ کے نواسے تھے۔ آپ ؒ خالص علمی آدمی تھے، مصنف اور محقق تھے۔ تصوف و طریقت کا بھی ذوق رکھتے تھے۔حسنی خانوادے کی تاریخ پر آپ کی ایسی قیمتی تالیفات ہیں کہ خانوادۂ حسنی کے متعلق معلومات کے لیے آپ مرجع کی حیثیت رکھتے تھے۔

        دارالعلوم ندوۃ العلماء سے عالمیت ، فضیلت و تخصص کے بعد رائے بریلی میں ندوۃ العلماء کی شاخ مدرسہ ضیاءالعلوم میں تدریس سے وابستہ ہوئے اور تا حیات تدریسی خدمات سے منسلک رہے۔
        ندوے کے ترجمان پندرہ روزہ تعمیرِ حیات کے ۲۰۰۸ء سے نائب مدیر رہے۔ رائے بریلی کے ماہنامہ پیامِ عرفات اور لکھنؤ کے ماہنامہ رضوان کی ادارت میں بھی شامل تھے جن میں آپ کے علمی و اصلاحی مضامین تسلسل سے آیا کرتے تھے۔ تصنیف و تالیف کا ایسا ملکہ حاصل تھا کہ کسی بھی موضوع پر بہت جلد تصنیف تیار کرلیا کرتے تھے۔ ہفتہ عشرہ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل ہوتے اور اچانک نمودار ہوتے تو کوئی نہ کوئی تازہ تصنیف بھی ساتھ ہوتی۔ سوانح نگاری کا خاص اسلوب آپ کو حاصل تھا۔ متعدد بزرگانِ دین کی سوانح لکھیں جن میں محی السنۃ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحبؒ ، امیر التبلیغ حضرت مولانا زبیرالحسن کاندھلویؒ، داعیٔ اسلام حضرت مولانا عبداللہ حسنی ندویؒ، حضرت مولانا عبدالباری ندویؒ ؒوغیرھم شامل ہیں۔ آپ کی وفات علمی دنیا کا ایک بڑا سانحہ ہے۔ اور تصنیف و تالیف کے میدان کا بڑا خلاء ہے۔

         مولانا مرحوم ؒحضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کے سفر و حضر کے رفیق تھے۔ حضرت ناظم صاحب کے اسفار ختم ہوتے اورمولانا محمود حسنیؒ کی جانب سے فورا ہی سفر نامے منظرِ عام پر آجاتے تھے۔ حضرت ناظم صاحب کی خود نوشت سوانح حیات "اوراقِ زندگی" کی تیاری میں آپ کا بڑا حصہ رہا ہے۔ پرانی پرانی باتوں کو معلوم کرکے انھیں الفاظ کا پیراہن دیا اور "اوراقِ زندگی" میں قیمتی اضافوں کا سبب بنے۔
       آپ کا اس طرح اس کم عمری میں اٹھ جانا صرف حسنی خاندان کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری علمی دنیا کے لیے، ابناءِ ندوہ کے لیے اور بطورِ خاص حضرت ناظم صاحب کے لیے انتہائی رنج و صدمے کا باعث ہے۔ اگرچہ کہ حضرت ناظم صاحب صبر و استقامت کا پہاڑ ہیں اورخود امتِ مسلمہ ہندیہ کے لیے کی تسلی کا سامان ہیں لیکن اس موقع پر آپ بھی تعزیت و تسلی کے مستحق ہیں۔ 

      ہم آپ کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اور جمیع اہلِ تعلق کو صبرِ جمیل عطاء فرمائے۔

      آخر میں مہتممِ جامعہ نے فرمایا کہ مولانا مرحومؒ جیسی علمی و فکری شخصیت کے اٹھ جانے سے وہ حدیث یاد آتی ہے کہ آپ ؐنے ارشاد فرمایا.. إنَّ اللهَ لاَ يَقْبِضُ العِلْمَ انْتِزَاعاً يَنْتَزعهُ مِنَ النَّاسِ، وَلكِنْ يَقْبِضُ العِلْمَ بِقَبْضِ العُلَمَاءِ۔ اللہ تعالیٰ علم کو بندوں سے چھین کر نہیں اٹھائے گا بلکہ وہ علماء کووفات دے کر علم کو اٹھائے گا۔
       مہتممِ جامعہ نے اس موقع پر مولانا مرحوم ؒسے اپنے ذاتی تعلقات کا بھی تذکرہ فرماتے ہوئے کہا کہ جب ہم ندوۃ العلماء پڑھنے کے لیے گئے تو آپ کا فضیلت کا آخری سال تھا، تب سے تعلقات تھے، بے تکلفانہ روابط تھے اور رائے بریلی و لکھنؤ کے اسفار میں ہمیشہ آپ سے ملنا جلنا رہا۔ بیماری کے ایام میں آخری ملاقات کا ذکر فرماتے ہوئے کہا کہ مولانا مرحومؒ کو ہم نے بڑا صابر و شاکر اور ہر حال میں اصلاح و تربیت کی طرف متوجہ پایا۔ب یماری کی وجہ سے صاحبِ فراش تھے لیکن خیریت دریافت کرنے پر الحمدللہ کہا اور بیماری کا ذکر چھوڑ کر تربیتی باتیں شروع کردیں اور بڑی تاکید سے شیخ الحدیث مولانا زکریاؒ کی کتاب "شریعت و طریقت" کا مطالعہ کرنے کے لیے اپنے پاس سے کتاب دی۔ مفکرِ اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے شجرۂ طریقت کا جو ہم نے چارٹ بنایا ہے وہ دراصل مولانا محمود حسنیؒ کے مختصر رسالے "سلاسل اربعہ" سے ہی مستفاد ہے۔ اس چارٹ کی سب سے زیادہ پذیرائی مولانا مرحوم ؒنے ہی کی تھی۔

        آخر میں طلبہ و اساتذۂ جامعہ نےسورۂ یاسین شریف پڑھ کر ایصالِ ثواب کیا۔ 
       دعا ہے اللہ پاک آپؒ کے جانے سے جو خلاء ہوا ہے اسے پر فرمائے اور امت کو آپ کا نعم البدل عطا فرمائے۔ آمین
______________
      اس تعزیتی نشست میں اساتذۂ جامعہ ابوالحسن میں مولانا نعیم الرحمن ندوی، مولانا محمد اطہر ندوی، مولانا جمال ناصر ندوی، مفتی محمد کاظم ندوی، مفتی حفظ الرحمن قاسمی، مولانا محمد قاسم ندوی، مولانا محمد مدثر ملی، جناب شعیب انجم سر نیز جمیع طلبۂ جامعہ شریک رہے۔
  از: شعبۂ نشر و اشاعت
جامعہ ابوالحسن علی ندویؒ، دیانہ، مالیگاؤں

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جامعہ ابوالحسن علی ندوی مالیگاؤں میں ثقافتی پروگرام بعنوان علم اور اہل علم کا مقام

جامعہ ابو الحسن مالیگاؤں میں سہ روزہ تربیتی اور تعارفی نشست

جامعہ ابو الحسن میں بزم خطابت کا تیسرا پروگرام بعنوان "اسلامی عبادتیں اور تہذیب نفس"