انگریزی زبان میں تقریری مسابقہ

(جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں)
✍ نعیم الرحمن ندوی

    انگریزی زبان آج عالمی زبان کا درجہ حاصل کرچکی ہے۔ سیاسی، سماجی، معاشی واقتصادی اور علمی و فکری ہر اعتبار سے ایک ترقی یافتہ زبان کی سطح کو پہنچ چکی ہے، انگریزی زبان کی اسی حیثیت کی وجہ سے فی زماننا دعوتی فریضہ انجام دینا بھی بہت آسان ہوگیا ہے، اگر مصلحین و دعاۃِ اسلام فقط اسی ایک انگریزی زبان پر عبور حاصل کر لیتے ہیں تو دوسری بہت سی علاقائی وملکی زبانوں سے بڑی حد تک مستغنی ہوسکتے ہیں۔ اسی ایک زبان سے دنیا میں ہر جگہ پیغامِ دین پہنچانے کا فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ جامعہ ابوالحسن علی ندوی مالیگاؤں روز اول ہی سے ملکی و عالمی سطح کے دعاۃ ومصلحین کی تیاری کا عزم رکھتا ہے۔ ؂
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتسابِ کائنات
      اس زبان کی اہمیت کا احساس اہل جامعہ کو خوب ہے، اسی بناء پر اس زبان میں گفتگو اور تقریر و خطابت کی صلاحیت پیدا کرنے کی طرف آغاز ہی سے کافی توجہ دی جارہی ہے۔
زندہ رہنا ہے تو میرِ کارواں بن کر رہو
اس زمیں کی پستیوں میں آسماں بن کر رہو 
(جوش ملیح آبادی)
      الحمدللہ! اردو اور عربی تقریروں کے ثقافتی پروگراموں کے ساتھ انگریزی زبان کا ثقافتی پروگرام بھی تمام طلباء کے درمیان مسابقے کی شکل میں منعقد کیا گیا جو توقع سے بڑھ کر اپنے مقصد میں کامیاب رہا، اس پروگرام کی روداد پیش خدمت ہے۔

_____________________ 

      مؤرخہ 12/ جنوری 2023ء بروز جمعرات جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں طلبائے جامعہ کے درمیان *انگلش تقریری مسابقہ* منعقد ہوا، جس میں سات طلبہ نے حصہ لیا۔ یہ پروگرام مدارس و مکاتب کے شہر، مالیگاؤں میں کسی دینی مدرسے میں انگریزی زبان میں اپنی نوعیت کا منفرد پروگرام ہے۔ اس مقابلے کی خصوصیت یہ بھی رہی کہ شہر کی انگریزی زبان سے منسلک ممتاز شخصیات کو مدعو کیا گیا، اے اے ٹی اسکول کے انگریزی کے سابق ٹیچر جناب شکیل انصاری سر اور انگریزی زبان میں رہبر کوچنگ کلاسیز کے بانی جناب جمیل سر، بڑی مالیگاؤں کے ریٹائرڈ ٹیچر جناب جمیل عبداللہ سر، یہ حضرات پروگرام کے مہمانان خصوصی تھے، تینوں ہی حضرات پروگرام میں از اول تا آخر تشریف فرما رہے۔ رہبر ہی کے عرفان سر بھی موجود تھے۔ مسابقے و مقابلے میں حکَم و فیصل کی ذمہ داری رہبر کوچنگ کے جناب جمیل سر نے انجام دی، اور صدارت مہتمم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب دامت برکاتہم نے فرمائی۔

سیون اسٹار مساہمین (٭٭٭٭٭٭٭)
      سات طلبہ نے اس مسابقے میں حصہ لیا، ان کے بہترین مظاہرے و پریزنٹیشن کی بناء پر جناب شکیل انصاری سر نے انہیں کوامپٹیشن کے سیون اسٹار کا لقب دیا۔ تقریری مسابقے کی لازمی خصوصیات اور مساہمین کی محنتوں کے پیشِ نظر بجا طور پر طلبہ اس اعزاز کے حقدار معلوم ہوتے ہیں۔

اسپیکرز اینڈ ٹاپکس
     پروگرام از اول تا آخر انگریزی زبان میں ہوا، اسکی نظامت، خصوصی ثانی کے طالبعلم حافظ اجود حسان نے کی، قرأت حافظ محمد یوسف، نعت حافظ محمد عفان نے پیش کی، حافظ محمد اسعد کی تحریک و تائید صدارت کے بعد تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا، مندرجہ ذیل عناوین پر طلبہ نے تقریریں کیں۔

1. Mohammad Siddique - Daawah and Tableeg 
2. Hafiz Mohammad Anas - Death
3. Hafiz Muhammad Yafai - Who is Allah?
4. Hafiz Muhammad Umar - Cleanliness in Islam
5. Hafiz Asjad Kamal - The right of Parents in Islam
6. Hafiz Ibrahim - The Holy Quran
7. Hafiz Junaid - The life of Prophet Muhammad (S.A.W.)

     پورا پروگرام طلبہ سمیت تمام سامعین نے بڑی دلچسپی و انہماک سے سنا۔ اسپوکن انگریزی کی ممتاز شخصیات؛ معزز مہمان کرام بھی ہمہ تن گوش رہے، اور اپنے تاثرات میں زریں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے "لگتا نہیں کہ انہوں نے مشق کرکے تقریریں کی ہیں بلکہ پروفیشنل اسپیکر معلوم ہوتے ہیں، ادائیگی اور لب ولہجہ مبتدی طلبہ کا بالکل نہیں معلوم ہوتا تھا بلکہ ماشاء اللہ pronunciation؛ تلفظ پر کافی گرفت نظر آ رہی تھی اور یوں محسوس ہوا کہ معنی مطلب سمجھ کر خطاب کر رہے ہیں۔ اسٹیج ڈیرنگ بھی بہت تھی، اور اعتماد سے بھرپور تھے۔ (اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ان طلبہ پر کافی محنت کی گئی، طلبہ نے صرف رٹ کر نہیں؛ سمجھ کر تقریریں کیں، مہتمم جامعہ اور جامعہ کے انگریزی ٹیچر جناب شعیب انجم انصاری سر کی بڑی توجہ تھی، ان حضرات نے بذاتِ خود بگوشِ خود متعدد بار تقریریں سن کر اصلاحات کیں۔)
_____________________ 

               مہمانان خصوصی کے تاثرات 


جناب جمیل سر کا اظہارِ خیال 
      طلبہ کی تقریروں کے بعد مہمانان خصوصی کو تاثرات پیش کرنے کے لئے مدعو کیا گیا، رہبر کوچنگ کلاسیز کے بانی جناب جمیل سر نے اپنے تاثرات کا آغاز یہ کہتے ہوئے کیا کہ "مجھے انگریزی تقریر کے مسابقہ میں شرکت کا دعوت نامہ بڑے اہتمام سے موصول ہوا، جب میں نے پڑھا تو حیران رہ گیا کہ غیر انگریزی ادارے یعنی ایک عربی مدرسے سے اس قسم کے پروگرام کا دعوت نامہ آیا ہے!! it was pleasant surprise for me یہ میرے لیے مسرت آمیز حیرانگی تھی۔ ___ دعوت نامہ جو بڑے اچھے اسلوب میں لکھا گیا تھا، دیکھ کر مزید شوق ہوا کہ ضرور ایسے ادارے میں جانا چاہیے، وہاں کے حالات و کوائف سے اور انگریزی زبان کی تدریسی سرگرمیوں سے آگاہ ہونا چاہیے۔ یہاں آکر واقعی مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ مجھے انگریزی ڈپارٹمنٹ کے شعیب انجم سر اور ادارے کے پرنسپل مولانا جمال عرف ندوی صاحب سے مل کر بہت خوش ہوئی، ان کی کوششوں پر انہیں بہت مبارکباد دیتا ہوں۔ طلبہ کی تقریروں اور پروگرام کو سننے کے بعد محسوس ہوا کہ اسکولوں اور کالجز کے معیار سے ہم پلہ ہیں، ہر اسپیکر طالب علم نے بڑی محنت سے تیاری کی، بہت اچھی تقریر پیش کی میں فیصلہ نہیں کرپا رہا تھا کہ کس کو امتیازی نمبر دوں اور کس کو نہ دوں!___ آخر میں انہوں نے دعوتی نقطہ نظر سے انگریزی زبان کی اہمیت بیان کی اور طلباء کو خوب محنت اور جہدِ مسلسل کی تاکید کی۔



جناب شکیل انصاری سر کے تاثرات 
        ان کے بعد مہمان خصوصی جناب شکیل انصاری سر کو دعوت سخن دی گئی ، انہوں نے اپنے تاثرات کا آغاز اسطرح کیا __ "میں ایک دینی مدرسے میں اتنی اچھی انگلش تقریریں سننے کا تصور نہیں کر سکتا تھا، میں اپنی تدریسی زندگی میں اس عمر اور اس درجہ کے طلبہ سے ایسی تقریریں غالبا پہلی مرتبہ سن رہا ہوں، میں اس پر خصوصی مبارکباد دیتا ہوں اور بہت زیادہ مبارکباد دیتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ بڑے اسلامک اسکالرز مستقبل کے لیے جس قسم کے علماء دیکھنا چاہتے تھے آپ اُس کی بالکل درست تصویر ہیں اور آپ اسی راستے پر چل رہے ہیں۔ آپ اپنے پرنسپل کے عکاس ہیں، آپ کے پرنسپل صاف اور کلیر کٹ ویژن وہدف رکھتے ہیں اور اسی ھدف کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں۔ 
     انگریزی زبان کی حیثیت ومقام کو بیان کرتے ہوئے ملک کے سابق وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کا جملہ دوہرایا ؛
English is the window of whole world.
 "انگریزی زبان پوری دنیا کی کھڑکی ہے۔" جس سے آپ ساری دنیا دیکھ سکتے ہیں، سمجھ سکتے ہیں اور ان کو لیڈ کرسکتے ہیں۔ 
     دنیا اسلام کو جاننا، سمجھنا چاہتی ہے، آپ انگلش اسپیکر بن کر ان کو گائیڈ کر سکتے ہیں اور حقیقی اسلام کی صحیح تصویر دکھا سکتے ہیں، ان کی غلط فہمیوں کو دور کرکے انہیں اسلام سے قریب کر سکتے ہیں، ملک کو آج آپ جیسے ایماندار آئی ایس ، آئی پی ایس آفیسرز کی ضرورت ہے جو ملک کو کرپشن اور دیوالیہ سے بچاسکیں، ملک اخلاقی اعتبار سے ایماندار لوگوں کا انتظار کر رہا ہے ،آپ اسلام کی بھی خدمت کریں اور ملک اور قوم کی خدمت کے لیے بھی آگے بڑھیں۔
      طلبہ مقررین کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہا ؛
 Seven speakers are the Seven Stars. ساتوں مقررین سات ستارے ہیں۔
جج کے لیے فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا تھا کہ کس کو نمبر ون کس کو نمبر ٹو دیا جائے؟ آپ کی پریزنٹیشن ہی اتنی اچھی رہی، یوں محسوس ہوتا تھا کہ آپ پروفیشنل انگلش اسپیکرز ہیں، مضمون ومواد بھی اچھا، انداز واسلوب بھی خوب، اعتماد و کانفیڈنس سے بھرپور تقریریں ہوئیں۔
      طلبہ کو انگریزی زبان کی طرف مزید توجہ کرنے کی تلقین کی اور دلچسپ انداز میں کافی دیر تک گفتگو کرتے رہے اسی درمیان انگریزی زبان کے میجک کا پُر مزاح دلچسپ واقعہ بھی ذکر کیا ہے جسے آپ کی انگریزی گفتگو میں سننا مفید ہوگا۔



____ خطبۂ صدارت 
      مہمانوں کے تاثرات سے قبل خطبۂ صدارت کے لیے جامعہ ابوالحسن علی ندوی کے روح رواں مہتمِ جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی دامت برکاتہم خطبہ صدارت کے لیے تشریف لائے۔ آپ نے بھی انگریزی زبان ہی میں اظہارِ خیال فرمایا۔ بے انتہا خوشی آپ کے چہرے اور آنکھوں سے عیاں تھیں، وہی خوشی جو ایک باغباں کو اپنے باغ کی تروتازگی پر ہوتی ہے، جو ایک مالی کو اپنے چمن کی شادابی وسرسبزی پر ہوتی ہے، وہی جو ایک مخلص استاذ کو اپنے محنتی طلبہ کی ترقی و کامیابی پر ہوتی ہے۔ آپ نے مسرت بھرے لہجے میں کہا کہ میں اس وقت حد درجہ خوشی محسوس کررہا ہوں۔ طلبہ کی بہترین کارکردگی پر طلبہ اور اساتذہ سبھی کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مہمانان کرام کی آمد اور ان کے اچھے اور سچے تاثرات پر کلماتِ تشکر کا اظہار کیا۔ اس کے بعد انگریزی زبان کی اہمیت و ضرورت کو بتاتے ہوئے دو باتیں بڑی اہم بیان کیں، ___ 1) آپ نے کہا کہ مجھے یاد آتا ہے کہ مولانا محمد ولی رحمانی رحمۃ اللہ علیہ انتقال سے چار پانچ سال قبل مالیگاؤں آئے تھے، چند علمائے کرام آپ کے پاس تشریف فرما تھے، اس درمیان کہا کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ آئندہ دس پندرہ سالوں کے بعد وہی عالم دین مسلم قوم کی قیادت کرسکے گا جو انگریزی زبان میں ماہر ہوگا، جو انگریزی میں تقریر کرسکتا ہو اور لوگوں کو اس زبان میں مطمئن کرسکتا ہو۔ ہم جن لوگوں کے درمیان رہ رہے ہیں، ان برادرانِ وطن اور عصری تعلیم یافتہ مسلمانوں کو اسلام کا تعارف کرانے اور انہیں اسلام سے قریب کرنے کیلئے انگریزی ضروری ہوگئی ہے، جو اسے نہیں استعمال کرسکے گا وہ قیادت بھی نہیں کرسکے گا۔ ___ 2) اپنے استاذ گرامی حضرت مولانا عبداللہ حسنی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی بات نقل فرماتے ہوئے کہا کہ حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ اکثر کہا کرتے تھے کہ سینکڑوں علماء ہیں جو اردو زبان میں درس قرآن دے رہے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ دوچار علماء ایسے ہوں جو انگریزی زبان میں درس قرآن دیں، اس کی بڑی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ آخر میں کہا کہ ہم انگریزی زبان سے مرعوب نہیں ہیں، تمام زبانیں اللہ کی تخلیق کردہ ہیں اور اللہ کی قدرت کی نشانی ہے، (ومن آیاتہ اختلاف السنتکم ....الخ)
all the languages created by Allah and all the languages the signs of Allah.
     پانچ ہزار سے زائد زبانیں ہمارے اس ملک میں بولی جاتی ہیں، ان میں کچھ زبانوں کو امتیاز حاصل ہے جیسے عربی زبان جو پیغام الہی کی زبان ہے، دین و شریعت کی زبان ہے اور اہل جنت کی بھی زبان ہوگی، اسے تمام زبانوں پر فوقیت حاصل ہے، اس کے بعد انگریزی زبان ہے جو گلوبل لینگویج یعنی عالمی زبان کا درجہ حاصل کرچکی ہے، دعوت کا کام کرنے کے لیے بےحد ضروری ہوگئی ہے، اس میں ہر قوم ہر ملک میں اسلام کی تبلیغ کی جاسکتی ہے، اس زبان کے ماہر علماء اور دعاۃ تیار کرنا وقت کی ضرورت بن چکی ہے۔ الحمداللہ اس جامعہ میں روز اول ہی سے دعوتی نقطہ نظر سے انگریزی زبان کی اہمیت کو پیش نظر رکھا گیا، گفتگو میں مہارت کیلئے انگلش اسپیکنگ کورسز کروائے جارہے ہیں اور تقریر کے لئے اس طرح کے لیکچرز اور اسپیکرز کی تیاری کروائی جاتی ہے۔

جناب شکیل انصاری سر نے جامعہ کے مہتمم صاحب کی انگریزی تقریر سننے کے بعد خود سے ڈائس پر آکر کہا کہ اتنی اچھی انگریزی اگر پرنسپل بولتا ہے تو پھر زیر تعلیم طلبہ کیوں نہیں ایسی اچھی انگریزی تقریر کرسکیں گے، میں اس پر خصوصی مبارک باد دیتا ہوں۔


پروگرام میں تمام ہی مہمانان کرام کی شال پوشی اور گل پیشی کی گئی۔ طلبہ کو انعامات سے نوازا گیا، وہیں طلبہ کی تیاری میں اہم رول پلے کرنے والے جامعہ کے انگریزی زبان کے مؤقر استاذ جناب شعیب انجم انصاری سر کو بھی خصوصی انعام سے نوازا گیا۔

صدر موصوف کی دعا پر پروگرام کا اختتام ہوا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جامعہ ابوالحسن علی ندوی مالیگاؤں میں ثقافتی پروگرام بعنوان علم اور اہل علم کا مقام

جامعہ ابو الحسن مالیگاؤں میں سہ روزہ تربیتی اور تعارفی نشست

جامعہ ابو الحسن میں بزم خطابت کا تیسرا پروگرام بعنوان "اسلامی عبادتیں اور تہذیب نفس"