جامعہ ابو الحسن علی ندوی میں مسابقہ نعت النبیﷺ
ہو نہ یہ نام تو کلیوں کا تبسم بھی نہ ہو
محمد اطہر ندوی ✍
تعلقات کی بھیڑ میں ایک مومن کامل کا محبوب اور معشوق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اور کون ہو سکتا ہے؟..... خود محبوب رب العالمین کا ارشاد ہے: لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعين (تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن کامل نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے والد اور اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔)
محبت اور اظہار محبت لازم و ملزوم ہیں، چنانچہ؛
عشق ہے تو عشق کا اظہار ہونا چاہیے
یہ بات سچ ہے کہ احساس و جذبات کے خوبصورت جسم پر الفاظ کی شیروانی پوری طرح فٹ نہیں آتی؛
جو ساز سے نکلی ہے وہ دھن سب نے سنی ہے
جو تار پہ بیتی ہے وہ کس دل کو پتہ ہے
پھر بھی کیفیات کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش ہر زمانے میں ہر صاحبِ زبان و قلم نے کی ہے۔ یہ بھی ایک سچ ہے کہ جذبات و احساسات کی ترجمانی نثر سے زیادہ شعر ہی کر سکتا ہے۔ چنانچہ عشقِ رسول کے اظہار کے لئے ولادت نبوی سے لے کر آج تک شعر کا سہارا لیا گیا، اردو میں اسے نعتِ نبی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔نعت کا موضوع چونکہ براہ راست حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے اس لیے یہ شاعری کی افضل ترین صنف ہے، اسی بنا پر مسلمانوں کا شیوہ رہا ہے کہ اپنے محبوب نبی کی محبت میں نعت گوئی اور نعت خوانی کی مجالس منعقد کرتے ہیں۔
10رجب 1444 مطابق 2 فروری 2023 کو جامعہ ابوالحسن علی ندوی کی بزم ثقافت کی جانب سے ایک مسابقۂ نعت النبی کا انعقاد عمل میں آیا، جس کی صدارت مہتمم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب دامت برکاتہم نے فرمائی۔
مشہور نعت خواں قاری زبیر اختر عثمانی اور بہترین کہنہ مشق نعت گو شاعر قاری رفیق احمد ملی عارش صاحب نے میزان عدل پر متمکن ہو کر انصاف کے تقاضے کو پورا کیا۔
نظامت کے فرائض ضیاء الرحمن (متعلم عالیہ ثالثہ شریعہ) نے انجام دیے۔حافظ شیخ یوسف (متعلم عربی اول) نے اپنی حسین قرأت سے مسابقہ کا آغاز کیا، حافظ محمد عمر (متعلم خصوصی ثانی) نے تحریک صدارت اور حافظ محمد اسعد(متعلم خصوصی ثانی) نے تائید صدارت پیش کی،جامعہ کے مؤقر استاذ مولانا محمد اطہر ندوی صاحب نے حکم صاحبان کا تعارف پیش کیا، بعد ازاں صدرمجلس کے ہاتھوں ردا پوشی سےان کا استقبال کیا گیا، مفتی حفظ الرحمن صاحب قاسمی کے ہاتھوں قرعہ اندازی کی گئی، اور ناظم جلسہ نے مساہمین کو نعت خوانی کے لیے ڈائس پر بلایا۔
کل 12 مساہمین نے اس پروگرام میں حصہ لیا اور شرک سے پاک، معیاری کلام بہترین لب و لہجہ اور درست تلفظ کے ساتھ سامعین کے گوش گزار کیا۔
1) حافظ محمد عفان (عربی اول)
محمد نبينا سراجنا منیرنا شفیعنا مجیبنا
2)حافظ محمد زيد (عربی اول)
نبی کا لب پر جو ذکر ہے بے مثال آیا کمال آیا
3)شیخ خالد (عربی اول)
معراج کی شب ہے دھوم مچی
4)حافظ محمد انس (خصوصی اول)
نبوت ناز کرتی ہے رسالت ناز کرتی ہے
5) حافظ محمد سعید (خصوصی اول)
سوچ سکے تو سوچ محمد کیسے ہیں
6) حافظ رضوان (خصوصی اول)
ہم نے آنکھوں سے دیکھا نہیں ہے مگر
7) حافظ سمیر (خصوصی ثانی)
میرے آقا لاجواب میرے مولی لاجواب
8)حافظ اجود حسان (خصوصی ثانی)
ایک رند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہ
9)حافظ اسجد کمال (خصوصی ثالث)
رہبرِ کاروانِ وفا آپ ہیں
10)حافظ نعیم (خصوصی ثالث)
شاملِ عبادت ہے آرزو مدینے کی
11)حافظ عبدالماجد (خصوصی ثالث)
مدینے کا سفر ہے اور میں نمدیدہ نمدیدہ
12) شیخ سہیل (متعلم عالیہ ثالثہ)
زلفِ نبی میں میں نے جو ہے قرار دیکھا
مسابقہ کے بعد قاری زبیر اختر عثمانی صاحب نے اپنے گرانقدر تاثرات کا اظہار کیا اور بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں گلدستہ نعت پیش کیا۔
بعد ازاں قاری رفیق احمد ملی عارش صاحب نے پہلے اپنا معیاری نعتیہ کلام سامعین کے گوش گزار کیا پھرمبنی بر انصاف اپنا فیصلہ سنایا۔
انعام یافتگان
اول انعام یافتہ : حافظ اسجد کمال (خصوصی ثالث)
رہبرِ کاروانِ وفا آپ ہیں
انعام : بیسٹ کوالٹی اسکول بیگ
دوم انعام یافتہ : حافظ اجود حسان (خصوصی ثانی)
ایک رند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہ
انعام : بیسٹ کوالٹی ہاٹ پاٹ
سوم انعام یافتگان (حکم صاحبان کے فیصلے کے مطابق دو مساہمین کے نمبرات تیسری پوزیشن کے لیے یکساں تھے اس لیے دونوں کو سوم انعام سے نوازا گیا) : حافظ محمد انس (خصوصی اول)
نبوت ناز کرتی ہے رسالت ناز کرتی ہے
انعام : بیسٹ کوالٹی ٹفن باکس
حافظ نعیم (خصوصی ثالث)
شاملِ عبادت ہے آرزو مدینے کی
انعام : بیسٹ کوالٹی ٹفن باکس
بہترین نظامت پر ناظم مسابقہ ضیاء الرحمن(عالیہ ثالثہ شریعہ) کو بھی انعام سے نوازا گیا
انعام : بیسٹ کوالٹی لنچ باکس
انعامات کی تقسیم حکم صاحبان اور صدر مجلس کے ہاتھوں عمل میں آئی، بعدہ صدر مجلس مولانا جمال عارف ندوی صاحب نے صدارتی کلمات پیش کئے اور انہی کی دعاؤں پر جلسے کا اختتام ہوا۔
_____________________
مسابقہ کیا تھا؟
مسابقہ کیا تھا؟ عشقِ رسول میں زمزم و کوثر و تسنیم کا بہتا دریا تھا، جس سے تشنہ لبوں کو عشقِ رسول کے لبالب جام و سبو پلائے گئے، کبھی رخ انور کا ذکر، کبھی زلفِ خمدار کا تذکرہ، کبھی عشقِ رسول کی سرمستی ، کبھی خُلق رسول کی دلنوازی،کبھی مدینے کی آرزو، کبھی مدح محبوب خدا، کبھی یارانِ باصفا کی یاد، کبھی شہیدانِ عشق و وفا کی داستان، کبھی کسی معجزہ کا واقعہ، کبھی معجز بیانی کی اثر انگیزی، کبھی قربانیوں کی داستانِ دلخراش، کبھی فتوحات کی حکایاتِ دلربا اور پھر عشق و مستی کی اس مجلس میں وہ دور بھی آیا جب بلبلِ باغ مدینہ قاری زبیر اختر عثمانی نے اپنی خوش نوائی سے جادو جگایا اور ایسا جادو جگایا کہ قلم بول اٹھا
اُس غیرتِ ناہید کی ہر تان ہے دیپک
شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو
ابھی خوش نوائی کا جادو اترا نہیں تھا کہ خوش فکر و خوش گلو شاعر قاری رفیق احمد ملی عارش صاحب نے اپنے کلامِ بلاغت نظام سے سامعین کو محظوظ کیا اور وقت کی قلت کا شکوہ کرتے ہوئے بَلانوش رندوں کی تشنگی کے باقی رہنے کے باوجود اپنی جگہ لی، اور مے کشوں نے آواز لگائی
ساقی تو چلا دور ذرا اور ابھی اور
مدہوش یہ کہتے ہیں پلا اور ابھی اور
تبھی صدر مجلس نے پیر مغاں کا کردار ادا کرتے ہوئے عشقِ رسول کے نشے میں مست رندوں کو سنبھالا دیا اور کہا کہ مطلق نعت خوانی اس مسابقے کا مقصد نہیں ہے بلکہ اس نعت خوانی سے مطلوب حب رسول ہے، وہ حبِ رسول جو اطاعت رسول تک لے جائے۔ مزید کہا کہ اس مسابقے میں ترنم اور لہجے کی مارکس دی گئی لیکن بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں مقبولیت کیلئے عشقِ نبوی مطلوب چاہے طرزِ ادا کیسی ہی، ہو ترنم نہ ہو، سینوں میں چنگاری ہونا چاہیے اور ہمیں امید ہے کہ اس اعتبار سے ہر مساہم بارگاہِ نبوی میں اول نمبر سے کامیاب ہے۔
اور پھر وعدہ فردا اور دعائے خیر و عافیت سے پیر مغاں نے نشست کی برخاستگی کا اعلان کر دیا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں