جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں کا سالانہ جلسہ
شیخ الحديث دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی آمد
(پہلا حصہ )
✍ نعیم الرحمن ندوی
مؤرخہ 20 فروری 2023ء بروز پیر بعد نماز عصر جامعہ ابوالحسن علی ندوی مالیگاؤں کے سالانہ جلسے کی مناسبت سے شیخ الحديث و صدر مفتی دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ حضرت مولانا مفتی نیاز احمد صاحب ندوی دامت برکاتہم کا احاطۂ جامعہ میں ورودِ مسعود ہوا۔
اساتذہ وطلبۂ جامعہ و معلمینِ مکاتب احاطہ جامعہ میں دو رویہ صفوں میں مہمان مکرم کے زبردست استقبال وخیر مقدم کے لئے دیر تک منتظر ومشتاق رہے۔
مہمان مکرم کے جامعہ میں داخل ہوتے ہی
عشق نے پھر کسی کو بھیجا ہے
خیرمقدم کریں جناب ان کا
پھر
کبھی خیر مقدم، کبھی مرحبا
زباں پر یہ الفاظ آنے لگے
حضرت مولانا کے مہمان خانہ پہنچتے ہی مقامی وبیرونی زائرین؛ علماء اور فارغين دارالعلوم ندوۃ العلماء ملاقاتیں رہیں۔
مغرب کے بعد پروگرام کا آغاز
نماز کے بعد اپنے وقت مقررہ پر پروگرام کا آغاز ہوا۔ بفضل اللہ توقع سے بڑھ کر سامعین جامعہ کی عالیشان مسجد میں حاضر رہے۔ احاطۂ جامعہ کی پارکنگ چاروں طرف سے گاڑیوں سے بھر گئی، حالانکہ راستے مایوس کن حد تک خستہ تھے، دل میں اندیشۂ قلتِ حاضری تھا لیکن الحمدللہ عوام تو عوام شہر کے اکابر علماء بھی شریکِ پروگرام ہوکر آخر تک اس بزم کا حصہ بنے رہے۔
حافظ سید عبدالعزیز متعلم خصوصی اول نے خوش الحانی سے کلام الہی کے ذریعے پروگرام کا آغاز کیا، اس کے بعد بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں نذرانۂ عقیدت پیش کرنے کے لئے حافظ محمد عفان متعلم عربی اول تشریف لائے۔
اردو، عربی تقریر اور ترانہ
جامعہ میں بزم خطابت کے عنوان سے ایک شعبہ قائم ہے جس میں اردو، عربی اور انگریزی تینوں زبانوں میں طلبہ کو خطاب وبیان کی مشق کروائی جاتی ہے۔ چنانچہ ان کی نمائندگی کے لیے ہر زبان میں ایک ایک مقرر طالبعلم مدعو کئے گئے، اردو تقریر کے لیے حافظ محمد نعیم ابن شفیق احمد متعلم خصوصی ثالث و بی اے فرسٹ ایئر نے "مسلمانوں کے دو اہم فیصلے" کے عنوان پر تقریر کی، اس تقریر کا اکثر حصہ مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی تقریروں سے ماخوذ تھا چنانچہ گھر واپسی، این آر سی، سی اے اے کے اعلانات ومنظوری، تین طلاق کی منسوخی جیسے حالات کے بیچ مسلمانان ہند کا رخ کیا ہو اور انہیں کیسے رہنا ہوگا؟ ایسے اہم سوالوں کے جواب تقریر میں موجود تھے۔ النادی العربی سے عربی تقریر کے لئے حافظ محمد ثقلین ابن شیخ عقیل متعلم خصوصی اول و بارہویں ڈائس پر آئے اور "الأسوة الحسنة" کے عنوان پر عربی لب و لہجے، انداز و ادا میں خطاب کیا۔
حمد و نعت اور دو تقریروں کے بعد ذہن کو تازگی بخشنے کے لیے شیخ سہیل ابن عبدالستار اور حافظ اجود حسان، حافظ اسعد نے ترانۂ دارالعلوم ندوۃ العلماء پیش کیا۔ یہ ترانہ؛ صرف ترانہ نہیں بلکہ ایک عزم ہے، ایک شعوری فیصلہ ہے۔
ہم نازش ملک وملت ہیں، ہم سے ہے درخشاں صبحِ وطن
ہم تابشِ دیں، ہم نورِ یقین، ہم حسنِ عمل، ہم خُلقِ حسن
گنجینۂ فضلِ رحمانی وہ جس نے بلند اسلام کیا ہے
دانش کدۂ شبلی جس نے پھر ذوق سخن کو عام کیا
وہ بزمِ سلیمانی جس نے تحقیقِ نظر کا کام کیا
انفاسِ علی نے روشن پھر ندوے کا جہاں میں نام کیا
طلبہ کے تاثرات
اس کے بعد جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں سے امسال رخصت ہونے والے طلبہ کی نمائندگی کے لیے دو طلبہ کو جامعہ سے جدائی پر اپنے تاثرات پیش کرنے کے لئے مدعو کیا گیا۔ پہلے عالیہ ثالثہ شریعہ + بی اے فرسٹ ایئر کے طالب علم ضیاءالرحمن ابن محمد یاسین آئے۔ ان کے بعد خصوصی ثالث + بی اے تھرڈ ایئر کے طالب علم حافظ اسجد کمال ابن مولانا محمد امین ملی آئے، ہر دو نے نہایت دلگیر انداز میں تاثرات پیش کیے کہ ہر دل غمناک، ہر آنکھ نمناک نظر آئیں۔ ان کے تاثرات کی چند سطریں ملاحظہ کیجیے۔
عزیزانِ گرامی! ہم کندۂ ناتراش تھے، جامعہ نے ہمیں اپنی آغوش میں لیا، لکھنا، پڑھنا، بولنا، تقریر کرنا حتى کہ کھیلنا، کودنا بھی سکھایا، اللہ کا تعارف کرایا اور رسول اللہ کی اطاعت سکھائی۔ جامعہ نے پیامِ انسانیت کے ذریعے انسانیت کے کام سکھائے، دعوت وتبلیغ کے راستے امت کی بدحالی کا ادراک کرایا۔ جامعہ نے ایک طرف عالِم ربّانی بنانے کی کوشش کی تو وہیں دوسری طرف عصری تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا، مختلف مساجد میں نماز جمعہ سے قبل منبرِ رسول ﷺ پر بٹھا کر رہنمائی کا طریقہ سکھایا۔
دُر فشانی نے تری قطروں کو دریا کردیا
دل کو روشن کردیا، آنکھوں کو بینا کردیا
مراٹھی اور انگریزی تقریریں
اس کے بعد صوبہ مہاراشٹر کی زبان مراٹھی بھاشا میں خصوصی ثانی + بی اے فرسٹ ایئر کے طالب علم حافظ شیخ سمیر شیخ محسن نے خالص مراٹھی لہجے میں توحید کے عنوان پر خطاب کیا۔ تھوڑی دیر کے لئے محسوس ہوا کہ کوئی مراٹھی مانش قبول اسلام کے بعد اپنے عقیدۂ توحید کو اپنے ہم زبانوں میں بیان کررہا ہے۔
موجودہ عہد کی بین الاقوامی زبان؛ انگریزی میں میں خطاب کرنے کے لیے عربی اول + بارہویں کے طالبعلم حافظ محمد ابراہیم ابن محمد امین تشریف لائے اور The Holy Qur'an کے عنوان پر تقریر کی، اس طالب علم نے بھی انگریزی کے عام بول چال لہجے میں اپنے مافی الضمیر کو پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی۔
تعلیمی مظاہرہ
چاروں زبانوں کے طلبہ مقررین نے خوب اچھا خطابتی مظاہرہ کیا۔ اب تعلیمی مظاہرے کے لیے چند طلبہ کو مدعو کیا گیا۔ گذشتہ کی طرح اس سالانہ جلسے میں بھی اہل جامعہ نے ضروری سمجھا کہ مروجہ چیزوں کے ساتھ کچھ تعلیمی مظاہرہ بھی ہونا چاہیے چنانچہ انگریزی زبان سے دلچسپی رکھنے والے جن طلباء پر خصوصی توجہ صرف کی گئی اور انہیں درجہ کی نصابی عربی کتابیں قصص النبیین، القراءۃ الراشدہ اور نصاب میں متعین قرآنی سورتوں کے عربی سے راست انگریزی ترجمہ کی مشق مہتممِ جامعہ نے بنفس نفیس کروائی، اس کے مظاہرے کے لیے دو طلبہ کو یکے بعد دیگرے بلایا گیا، مالیگاؤں کے باصلاحیت، عربی انگریزی دونوں زبانوں پر مہارت رکھنے والے عالم دین حضرت مولانا ضیاء الدین ندوی صاحب کو مدعو کرکے طلبہ کو امتحان کے لیے پیش کیا گیا۔ پہلے خصوصی اول + گیارہویں سائنس کے طالب علم شیخ محمد صدیق ابن حافظ اسلم آئے، انہیں قصص النبیین کے قصۃ ابراہیم کے جملہ اسباق سے مختلف مقامات سے ترجمہ کرنے کو کہا گیا، اس کے بعد خصوصی ثانی + گیارہویں سائنس کے طالب علم حافظ اجود حسان ابن مولانا محمد فاروق ندوی تشریف لائے، ان سے سورہ یوسف کی ابتدائی چھ رکوعات میں سے مختلف آیتوں کے برجستہ ترجمے کروائے گئے۔ دونوں طلبہ سے کچھ الگ سے سوال کرکے کتاب فہمی اور مضمونِ سورۃ کا امتحان بھی لیا گیا، دونوں ہی طلبہ نے بڑی خوداعتمادی سے روانی کے ساتھ انگریزی میں جوابات دیئے، ممتحن وایگزامینر مولانا ضیاء الدین ندوی صاحب نے اپنے تاثرات میں کافی اطمینان کا اظہار فرمایا، ان کی اور مہتمِ جامعہ کی محنتوں کو سراہا، بارگاہ الہی میں دعائیہ کلمات ادا کئے۔
_____________________
دوسرا اور آخری حصہ اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں۔
1) مہتمم جامعہ کی سالانہ رپورٹ
2) تکمیل حفظ و تکمیل مشکوۃ
3) مہمان مکرم کا خطاب
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں