فضیلة الشیخ ابو صالح انیس لقمان الندوی کی جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں آمد
روداد نگار: نعیم الرحمن ندوی
بروز منگل مؤرخہ 8/ اگست 2023ء مطابق 21 محرم الحرام 1445ھ، شہر عزیز مالیگاؤں کے علمی و فکری میدان کے قابل فخر سپوت، دارالعلوم ندوۃ العلماء کے فاضل شیخ ابو صالح انیس لقمان ندوی صاحب کی جامعہ ابوالحسن آمد ہوئی۔ آپ سے منسلک شخصیات میں آپ کے برادران؛ محترم جناب مسعود پینٹر اور محترم جناب اسلم صاحبان کی بھی تشریف آوری ہوئی۔ شہر کی علمی شخصیات میں مولانا ضیاء الدین ندوی اور مولانا ابوالفضل اورنگزیب ندوی صاحبان بھی تشریف فرما ہوئے۔ فضائے جامعہ ان علمی و فکری شخصیات کی آمد سے پُر رونق و پُربہار ہوگئی۔
خیر وبرکت بڑھ گئی جب آپ کے آئے قدم
آپ کی آمد بنی ہے وجہِ تسکینِ جگر
جامعہ کی وزٹ اور جامعہ کے نظامِ تعلیم و تربیت کا جائزہ لینے کے لیے مہمان مکرم ابو صالح صاحب نے جامعہ کی درسگاہ کا بنفس نفیس اک اک کلاس میں جا کر جائزہ لیا، لائبریری دیکھی، کتابوں کو دیکھا آخر میں کانفرنس ہال میں منتظر و مشتاق تمام طلبہ و اساتذہ سے گھنٹہ بھر طویل خطاب کیا۔
پروگرام مولانا محمد اطہر ندوی صاحب کی پرکشش نظامت و منفرد نقابت میں شروع ہوا۔ تلاوت قرآن اور نعت خوانی کے بعد مہمانان کرام کا استقبال مہتمم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب کے ہاتھوں گل پیشی و شال پوشی کے ذریعے ہوا۔ بعد ازاں مہتمم جامعہ ہی کو مہمانان کرام کے تعارف کے لیے مدعو کیا گیا۔ آپ نے بڑے نپے تلے الفاظ اور اپنے مخصوص انداز و اسلوب میں مہمانوں کا؛ بطور خاص ابو صالح صاحب کا تعارف پیش کیا جو یقینا سامعین کے ساتھ قارئین کے لیے بھی بصیرت افروز ہوگا، اختصار اور جامعیت کے پیش نظر اسے ہی نقل کرنا مفید معلوم ہوتا ہے۔
مہمان مکرم ابوصالح صاحب کا تعارف :
حمد و صلاۃ کے بعد آپ یوں گویا ہوئے؛ جامعہ ابوالحسن علی ندوی کے کانفرنس ہال میں شہ نشین پر جو شخصیت جلوہ افروز ہے، وہ گوناگوں اوصاف سے متصف ہے، ان میں مطالعہ کی گہرائی بھی ہے تجربات کی وسعت بھی، زبان و ادب حلاوت بھی، فکر و نظر کی پختگی بھی اور قوم و ملت کے لئے کام کرنے کا عظیم جذبہ بھی، انہوں نے اپنی راہ خود تلاش کی ہے، یہ وہ شخصیت ہے جو فرسودہ روایات کو بغیر اساس کے مان لینے اور اس سے چمٹے رہنے کو قطعا برداشت نہیں کرتی۔ اس شخصیت نے عربی زبان و ادب میں ایسا کمال پیدا کیا جس کے ذریعے سے ان کا جمال آشکارا ہوا، ہماری مراد دارالعلوم ندوۃ العلماء کے مایہ ناز فاضل محترم شیخ ابو صالح انیس لقمان ندوی حفظہ اللہ ورعاہ ہیں۔
مولانا شہر مالیگاؤں کے رہنے والے ہیں، آپ نے 1983ء میں مدرسہ بیت العلوم سے فراغت حاصل کی اس کے بعد اعلی تعلیم کے لیے ندوۃ العلماء گئے، وہاں دو سال رہ کر عربی زبان و ادب اور علوم شرعیہ میں اختصاص کیا، 1985ء میں فارغ ہوئے اور مالیگاؤں میں مدرسہ بیت العلوم میں چار سال تک تدریس کی خدمت انجام دی۔ اس کے بعد آپ نے شہر کی نئی نسل کو عربی زبان سے آشنا کرنے اور دینی تعلیم کی غرض سے ایک نئی راہ اختیار کی، نیا طریقہ اپنایا، شہر میں عربی زبان کی کلاسیں جاری کیں، آپ کی یہ کلاسیں چہار دیواری میں نہ رہ کر چلتی پھرتی کلاسیں تھیں، طلبہ میں عربی تکلم کی پختہ مہارت پیدا کرنے کے لیے آپ نے کامیاب تجربے کئے۔
اللہ پاک کی طرف سے آپ کو عطا کردہ زبردست صلاحیتوں کا تقاضہ تھا کہ آپ کو کام کے لیے بڑا میدان اور مناسب ماحول ملتا۔ چنانچہ آپ نے شہر مالیگاؤں سے باہر قدم نکالا اور ہندوستان کے دار السلطنت دہلی میں کچھ عرصہ قیام کیا اور زبردست علمی اور تحقیقی خدمات انجام دیں۔ 1995ء میں بحکمت خداوندی متحدہ عرب امارات پہنچے وہاں کی راجدھانی ابوظبی میں متعدد انگلش میڈیم اسکولوں میں عربی زبان و ادب اور علوم شریعہ و سماجی علوم میں تدریس کا فریضہ انجام دیا، اس میں ترقی کرتے ہوئے وائس پرنسپل کے عہدے تک پہنچے۔ آپ کی منفرد صلاحیتیں دیکھتے ہوئے بفضل الہی متحدہ عرب امارات نے اپنی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک عجمی (غیر عربی) کو عرب طلبہ کو عربی پڑھانے کا اجازت نامہ (لائسنس) دیا۔ مزید اپنے ممتاز تحقیقی مزاج کی وجہ سے ابوظبی کے شاہی خاندان (رائل فیمیلی) کے زیر اہتمام چلنے والی سوسائٹی، معذورين کی تعلیم وتربیت اور فلاح و بہبود میں نمایاں خدمات انجام دینے والے ادارے "سدریٰ فاؤنڈیشن" کے شعبۂ تحقیق و ریسرچ میں گذشتہ 10 سالوں سے صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں، گویا ابوظبی کی رائل فیمیلی کا اعتبار و اعتماد بھی اس شخصیت کو حاصل ہے۔
کتابوں کے ایسے رسیا و دلدادہ ہیں اور کتابوں سے ایسے وابستہ ہیں کہ آپ کو بجا طور پر "کتابوں کا کیڑا" کہا جاسکتا ہے، آج بھی کتابوں کو خرید کر پڑھنا اور اپنے شاگردانِ عزیز کو خرید کر کتابیں ھدیہ تحفہ دینا اور اس طرح کتابوں سے جوڑنا آپ کا محبوب مشغلہ ہے۔ عربی و انگریزی زبان میں سیکڑوں تحقیقی مضامین، متعدد رسالے اور کتابیں آپ نے سپرد قرطاس کی ہیں جو شاہکار کی حیثیت رکھتی ہیں۔
دو ممتاز تلامذہ
اخیر میں اسٹیج پر جلوہ افروز؛ مہمان مکرم ابوصالح صاحب کے دو ممتاز تلامذہ کا بھی مختصر تعارف پیش کیا۔
1) مولانا ابوالفضل اورنگزیب ندوی صاحب، فاضل مدرسہ بیت العلوم و فاضل ندوۃ العلماء ، ابوظبی ہی کی ایک انگریزی میڈیم اسکول میں عربی زبان و ادب کے استاذ ہیں اور
2) مولانا ضیاء الدین ندوی صاحب، آپ بھی بیت العلوم سے فارغ ہو کر ندوۃ العلماء میں چار سال رہ کر عربی زبان و ادب میں اختصاص کیا۔ بعد ازاں بھاؤ نگر، گجرات اور پھر مدرسہ بیت العلوم میں ایک طویل عرصہ تک تدریسی خدمات انجام دیں۔ گذشتہ کئی سالوں سے آپ عروس البلاد ممبئی میں عربی انگریزی زبانوں میں بہترین مترجم کی حیثیت سے خدمت انجام دے رہے ہیں۔
یہ دونوں ہی شخصیتیں دینی حمیت اور فکر و نظر سے متصف ہونے کے ساتھ عربی و انگریزی زبانوں میں پختہ صلاحیت کے مالک ہیں۔
______________
مہمانِ مکرم کا خطابِ خاص :
آپ کے بعد مہمان مکرم شیخ ابو صالح انیس لقمان ندوی ڈائس پر تشریف لائے، آپ نے حمد و صلاۃ کے بعد آغاز ہی میں کہا کہ مولانا جمال عارف ندوی صاحب نے میرے حق میں ایک بات صحیح ترین کہی ہے کہ "أنا سوس الکتاب: میں کتاب کا کیڑا ہوں" اس کے بعد کتاب کی اہمیت پر اپنا طویل اور جامع کلام منظوم پیش کیا حالانکہ آپ باقاعدہ شاعر نہیں لیکن کتاب سے متعلق ایسی جامع اور طویل نظم کہی وہ یقینا آپ کے کتابوں سے عشق کی غماز ہے، شاید اردو ذخیرۂ شاعری میں کتاب کے عنوان پر سولہ اشعار؛ بتیس مصرعوں پر مشتمل ایسی طویل نظم اور بہترین کلام نہ ہو، ہر شعر ایک مکمل تقریر کا عنوان بنایا جاسکتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
کتاب نے کیا آباد سارے عالم کو
کتاب نے کیا آزاد نسلِ آدم کو
جو دے کتاب کو جتنا، وہ دے اُسے اُتنا
کتاب کے لیے یکساں ہے بادشاہ و گدا
لباس کاغذی اس کا ہو یا ہو ڈیجیٹل
کتاب پر ہے مدارِ فروغِ فرد و مِلَلْ
نظم پرنٹ کر کے لائے، چند اشعار بچوں سے پڑھواکر سنا اور خود بھی مکمل نظم پڑھ کر سنائی۔
( ⬇️ ⬇️ ⬇️مکمل نظم ...)
عشقِ کتاب کا اہم عنصر :
کتابوں سے ایسا گہرا تعلق پیدا ہونے میں اہم عنصر بھی انہوں نے ذکر کیا کہ آپ کی والدہ محترمہ کتاب سے رغبت دلانے کی غرض سے بچپن میں ایک شعر ان کو پڑھ کر سنایا کرتی تھی جس نے انہیں کتابوں سے قریب کردیا اور آج وہ قربت اس درجے تک بڑھ گئی ہے، وہ شعر ہے ؛
ہم نشینی اگر کتاب سے ہو
اس سے بہتر کوئی جلیس نہیں
بچپن کی معصومانہ شرارت میں "جلیس" کی جگہ اپنا نام "انیس" جوڑ دیا کرتے تھے _تجھ سے بہتر کوئی انیس نہیں _
یقینا بچے کی تربیت میں ماں کا کردار لاثانی ہوا کرتا ہے، سچ کہا ہے کسی نے ؛ ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے۔
کسی عرب نے ماں کو بڑا اچھا خراج عقیدت پیش کیا ہے ؛
وان أول مدرسة يتعلم فيها الطفل هي حضن الأم، فالام الصالحة تربي طفلاً صالحاً، إن الأم أول وطن لنا لأننا كنا بداخلها، والأم أول حب غير مشروط، وأول مدرسة تعلمنا منها كيف نبدأ حياتنا، الأم أول حضن، وأدفأ حضن، وأصدق حضن، الأم أول كنز نملكه، وأغلى شيء يمكن أن نخسره، الأم أقصر طرقنا إلى الجنة، ووجودها بحياتنا جنتنا على الأرض.
علمی و فکری نقد کا مزاج :
آپ نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ ذہن انسانی کی آزادی کا واحد راستہ یہ ہےکہ جو کچھ وہ دیکھے اس پر ناقدانہ نظر ڈالے، اپنے اندر ناقدانہ ذوق پیدا کرے، اس سے بتدریج بصیرت پیدا ہوتی ہے۔ جو پڑھے؛ قطع نظر اس سے کہ وہ کس کی کتاب ہے، اس پر سوالات قائم کرے سوائے قران مجید کے
التائات الخمسة :
آپ کے لیکچر کی خصوصیات میں سے ہے کہ آپ اپنے سامعین کو کچھ نہ کچھ اہم اصولی باتیں فراہم کرتے ہیں اور انہیں کچھ اس طرح جوڑتے ہیں کہ یاد رکھنا آسان ہوجاتا ہے، اس مرتبہ بھی آپ نے تعلیمی و فکری ارتقاء کے متعلق "التائات الخمسة" کے عنوان سے پانچ اصولی باتیں ذکر کیں، کہا کہ ان سے مراد 1) توجہ 2) تنظیم 3) تعاون 4) تسلسل 5) تنقیدی جائزہ و تصحیح ہے اور پھر ان کی مختصر تشریح کی
عوامی ناخواندگی دور کی جائے :
آپ نے؛ مسلمانوں کی تعلیم کے تئیں پسماندگی کو؛ عالمی اور ملکی جائزے، سچر کمیٹی جیسی تحقیقات کی روشنی میں واضح کیا جس سے محسوس ہوا کہ اب تک کی اس طرف پیش رفت نہ کے برابر ہوئی ہے، علماء کو اک اک محلے کا سروے کرکے ناخواندہ افراد کی فہرست بناکر انہیں لکھنا پڑھنا سکھانے کی ترتیب بنانا چاہیے۔
علمی و فکری نقد انسان کا جائز حق :
مولانا موصوف نے اپنے مخصوص ناقدانہ فکر و نظر کے سبب جامعہ پر بھی کچھ مفید نقد کیا، جامعہ اسے مہمان مکرم کا جائز حق تسلیم کرتا ہے، زندہ معاشرے کی یہی خوبی ہے کہ اختلاف آراء ہوتا ہے اور اصلاح کے نقطہ نظر سے اس پر غور و فکر بھی کیا جاتا ہے، یہ مزاج ارتقائے فکر و نظر کے لیے ضروری ہے۔
چمن میں اختلاط رنگ و بو سے ہی تو بات بنتی ہے
تم ہی تم ہو تو کیا تم ہو، ہم ہی ہم ہیں تو کیا ہم ہیں
"اختلاط" کی جگہ "اختلاف" رکھ کر بھی پڑھا جاسکتا ہے۔
دعا پر مجلس کا اختتام ہوا
شعبہ نشر واشاعت
جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں