حضرت مولانا قاری عرفان احمد صاحب ندوی حفظہ اللہ کی جامعہ ابو الحسن، مالیگاؤں آمد



✍ نعیم الرحمن ندوی 

     شہر عزیز مالیگاؤں بڑا مردم خیز علاقہ رہا ہے اور اب بھی ہے، سونے چاندی کے کانوں کی طرح بہترین صلاحیتوں سے معمور شخصیتوں کو شہر اپنی آغوش میں پالتا، پوستا اور علم و دعوت کے افق پر پہنچاتا رہا ہے۔ اس چھوٹے سے شہر سے ہیرے جیسی قیمتی شخصیات ابھرتی اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا عالمی و ملکی سطح پر منواتی رہی ہے۔ ایسے ہی انمول لعل و گوہر میں مالیگاؤں کے مایہ ناز فرزند، لندن کی قوۃ الاسلام مسجد میں 33 سالوں سے دینی خدمات انجام دینے والی اور اسی اسلامک سینٹر سے فریضہ دعوت ادا کرنے والی شخصیت حضرت مولانا قاری عرفان احمد صاحب ندوی حفظہ اللہ ہیں۔ آپ نے 29 اگست بروز منگل صبح گیارہ بجے جامعہ ابو الحسن مالیگاؤں میں قدم رنجا فرما کر تسکینِ قلب کا سامان فراہم کیا۔

      مہتم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب کی معیت میں آپ نے جامعہ کی درسگاہ، لائبریری و ہاسٹل کا تفصیلی جائزہ لیا۔ اس موقع پر جامعہ کے طلبہ واساتذہ؛ جامعہ کی مسجد سمیہؓ میں جمع ہو کر آپ کے گرانقدر خطاب سے مستفید ہوئے۔ مہتم صاحب نے مہمان مکرم کا شال پوشی و گل پیشی سے استقبال کیا۔ طلبہ جامعہ نے بھی مختصراً اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کیا، مؤقر استاد مولانا محمد اطہر ندوی صاحب نے حسب سابق بہترین نظامت فرمائی، اخیر میں مہمان مکرم نے اپنی گہرے تاثرات کا اظہار فرمایا، اس کی روداد مختصراً پیش ہے۔

مہمان مکرم کا تعارف :
     مہتمم جامعہ نے اپنے تعارفی خطاب میں فرمایا کہ دار العلوم ندوۃ العلماء کے جن فرزندوں پر ہمیں رشک آتا ہے کہ کاش ہم بھی انہی کی طرح دینی خدمات انجام دیتے ان میں ایک عظیم شخصیت ہمارے آج کے مہمان خصوصی حضرت مولانا قاری عرفان احمد صاحب ندوی حفظہ اللہ ہیں۔ طلبہ جامعہ کی جانب روئے سخن کرتے ہوئے فرمایا کہ جامعہ کی چہار دیواری میں آپ نے ہم سے بار بار یہ سنا ہے کہ جامعہ کے تعلیمی و تربیتی نظام کے ذریعے ہم چاہتے ہیں کہ یہاں کے طلبہ علوم شریعہ میں مہارت کے ساتھ ساتھ عربی اور انگریزی زبان میں بھی کمال پیدا کریں، عصری اور سائنسی علوم سے واقف ہوں اور دعوتی مزاج کے حامل ہوں، یہ چاہت مجسم شکل میں اگر آپ کسی شخصیت میں دیکھنا چاہتے ہیں تو وہ ہمارے آج کے مہمان مکرم حضرت قاری صاحب کی شخصیت ہے، مولانا علومِ شرعیہ میں مہارت رکھتے ہیں، ساتھ ہی انہیں انگریزی اور عربی زبان میں پورا عبور و کمانڈ حاصل ہے، اسی کے ساتھ زبردست دعوتی خدمات انجام دے رہے ہیں، اللہ تبارک وتعالی نے ان کے لیے مغرب کے دروازے کھول دیئے اور دیارِ مغرب میں اسلام کی قوت و شوکت کا مظہر قوۃ الاسلام مسجد جو زبردست اسلامک سینٹر بھی ہے وہاں اللہ نے مولانا کو پہنچا دیا، مولانا نے ایک عرصہ ساؤتھ افریقہ میں بھی دینی خدمات میں گزارا، آج لندن کی سرزمین پر زبردست دعوتی مشن انجام دے رہے ہیں ساتھ ہی charity کا بہترین کام آپ کے ذریعے ہو رہا ہے۔ جمعہ کے خطبات، اردو، عربی اور انگریزی زبانوں میں نتیجہ خیز خطابات اور دلپذیر قرأتِ قرآن کے ذریعے مسجد قوۃ الاسلام کے غیر مسلمین زائرین کے لیے قربِ اسلام اور قبولِ اسلام کا ذریعہ بن رہے ہیں، ہر جمعہ کو کچھ نہ کچھ عیسائی اس اسلامک سینٹر میں اسلام قبول کرتے ہیں۔ اگر حضرت قاری صاحب جیسی شخصیت مغربی ممالک میں بڑی تعداد میں پہنچیں تو دعوتی کام مزید آگے بڑھے اور قبولِ اسلام کی رفتار اور تیز ہو جائے۔ اس اعتبار سے حضرت قاری صاحب ہم سب کے لیے بہت ہی قابلِ رشک ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے یہاں پڑھنے والے طلبہ اسی اسپرٹ، اور اسی جذبے کو لے کر آگے بڑھیں۔

طلبہ کا مختصر مظاہرہ :
     اس مختصر اور جامع تعارف کے بعد جامعہ کے عربی، اردو اور انگریزی بزم خطابت سے نمائندگی کرتے ہوئے عربی اول کے حافظ شیخ عادل ابن حاجی عبدالرشید نے اردو میں تین منٹ کی تقریر "مسلمانوں کے عروج و زوال" کے عنوان پر کی، اسی طرح عربی دوم کے طالب علم حافظ محمد ابراہیم نے انگریزی میں "Charity in Islam" کے عنوان پر تقریر کی۔


___ قاری صاحب کا خطاب ___

      خطاب کا آغاز طلبہ کی تعلیم کے تئیں شوق و ترغیب کی باتوں سے کیا، فرمایا اگر آپ محنت کرتے ہیں اور نظام تعلیم و تربیت سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو آپ ہی میں اللہ تعالی بڑے بڑے علماء، دعاۃ اور مفکرین پیدا کریں گے، کوئی نہیں جانتا کہ آپ میں کون کتنی اونچی اڑان بھرے گا اور کیسی عظیم دینی خدمات انجام دے گا! __ ادارے تو بہت سے ہیں لیکن یہ ایک مثالی ادارہ ہے جو آپ کو دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم سے بھی آراستہ کر رہا ہے، اس وقت دینی پختگی اور دعوتی نقطہ نظر سے عربی اور انگریزی زبانوں میں مضبوط صلاحیتوں کی بڑی ضرورت ہے اور اس ادارے میں ان کے حصول کے لیے آپ کو پورے مواقع حاصل ہیں۔ اس ادارے میں آپ کا وقت بھی بچے گا اور آپ کی صلاحیتیں بھی بہت تیزی سے آگے بڑھیں گی، آپ بہت اچھے ادارے میں ہیں۔

بچپن کی دعا؛ عالمی داعی بننا :
     طلبہ کی ترغیب اور نامساعد حالات سے نمٹنے کا حوصلہ دینے کی غرض سے آپ نے اپنے کچھ حالات بڑے دل پذیر اور دلچسپ انداز میں بیان فرمایا، ذاتی تجربے کی روشنی میں بتایا کہ بچپن کی معصوم تمنائیں، پاکیزہ آرزوئیں اور معصوم دل و زبان سے کی جانے والی دعائیں بارگاہ الہی میں کیسے مقبول ہوتی ہیں، آپ نے کہا کہ اس عمر میں آپ بڑے عزائم اور اونچی تمنائیں رکھیں، عالمی سطح پر دعوتی فرض انجام دینے کا حوصلہ پیدا کریں اور اللہ سے بڑی چیزیں مانگیں، اللہ کے نبی ﷺ نے بھی اسی کا حکم دیا ہے کہ جب اللہ سے جنت مانگو تو جنت الفردوس مانگو (عام جنت نہیں سب سے اعلی جنت) جنت الفردوس مانگنے کا حکم دیا، اس لیے دعائیں مانگیں تو بڑی چیزیں مانگىں۔
     آپ نے ذکر کیا کہ بچپن میں تمنا تھی اور دعا کرتا تھا کہ اللہ مجھے عالمی داعی بنائے، آج گرچہ عالمی داعی تو نہ بن سکا لیکن ایسے مقام پر ہوں اور اُس جگہ ہوں جہاں دنیا بھر کے مسلمان جمع ہوتے ہیں، اُس مسجد میں امامت کرتا ہوں جہاں امریکہ و یورپ کے ساتھ عربی، افریقی، ایشیائی اور دنیا بھر کے ملکوں کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور غیر مسلمین وہاں آکر اسلام کو، اس کی عبادتوں کو دیکھتے ہیں اور حلقہ بگوشِ اسلام ہوتے ہیں۔

ھم أراذلنا بادی الرأی :
      یہ بھی عجیب تاریخ رہی ہے کہ دینی و ایمانی سبقت کرنے والے لوگ اور دعوتی سرگرمیوں میں بامِ عروج پر پہنچنے والی عظیم شخصیات بڑے بڑے محلوں، بنگلوں اور اونچے گھرانوں سے نکلنے والے نہیں بلکہ کچے مکانوں، خستہ جھونپڑیوں اور ٹوٹی چٹائیوں میں رہنے والے رہے ہیں جن کی اُٹھان کسمپرسی و افلاس میں ہوا کرتی ہے، جن کے لیے قوم کے مستکبرین کہتے رہے ہیں _ ھم أراذلنا بادی الرأی : یہ ہم میں سب سے زیادہ بے حیثیت ہیں۔
    مالیگاؤں کی بلند دینی شخصیات بھی بیشتر کچے مکانوں میں پلی بڑھی ہیں، یہاں کی دینی حمیت رکھنے والی ماؤں نے غربت و افلاس کے سبب چرخے پر سوٗت کات کر، فقر و فاقے اٹھاکر اپنے بچوں کو دینی تعلیم و تربیت میں آگے بڑھایا، پھر؛ "جس طرح آسمان پر ستارے چمکتے ہیں ایسے ہی زمین پر محنتی انسان چمکتے ہیں" کے مصداق یہ نعم و آلاء سے محروم محنتی بچے بڑے ہوکر کامرانی کے بامِ عروج پر پہنچے ہیں۔ حضرت قاری صاحب نے بھی اپنا پس منظر کچھ اسی طرح کا بتایا تاکہ طلباءِ جامعہ اپنی کسمپرسی سے صرفِ نظر کر کے تابناک مستقبل پر نگاہیں جمائیں۔

دو اہم باتیں :
     آپ نے مسک الختام کے طور پر طلبۂ جامعہ کو دو اہم باتوں کی نصیحت کی؛ ایک عقیدے سے متعلق کہ اپنا عقیدہ صحیح اور مضبوط رکھنا ہے، عقیدۂ توحید پر قائم رہنا ہے اور دوسرے اپنے اندر اختصاص (Speciality) پیدا کرنا ہے، اس وقت دینی و دعوتی کام کے لیے ان دو چیزوں کی بڑی ضرورت ہے، یہ دور اختصاص کا ہے۔

ندوۃ کی باتیں :
    آپ نے طلبہ کو دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تعلیم کا شوق دلایا اور ندوے کی اہمیت، فضائے ندوہ کی خصوصیات ذکر کیں اور وہاں اپنے بیتے دنوں کی خوشگوار و سبق آموز یادوں کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا۔ ندوے میں منعقد ہونے والے تمثیلی مشاعرے اور اس میں امیر خسرو کا رول ادا کرنا، جمالیہ ہال میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کی موجودگی میں فارسی کلام پڑھنا اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا اس کلام کو سن کر اشکبار ہوجانا اور اس بہانے حضرت کی دعائیں اور توجہات حاصل کرنا، قرآن کریم کی پر سوز و دل آویز تلاوت کے ذریعہ اساتذۂ ندوہ کا قرب حاصل کرنا اور ان جیسے متعدد واقعات اس مؤثر پرایۂ بیان میں سناتے رہے کہ طلبہ اساتذہ سر دھنتے رہے۔ طلبہ جامعہ کے سینوں میں تمنائیں انگڑائیاں لینے لگیں۔

اختتامِ مجلس آپ کی قرأت سے :
     دعا سے قبل آپ کے رفیق محترم مفتی نعیم احمد قاسمی صاحب نے آپ سے قرأتِ قرآن کی درخواست کی جسے آپ نے منظور کرتے ہوئے سورہ مائدہ کی آخری مکمل رکوع کی تلاوت بڑی خوش الحانی سے فرمائی جسے بڑے ذوق و شوق سے سنا گیا؛ بارک اللہ فی حسن أدائہ و وأعانہ فی تلاوتہ آناء اللیل و آناء النھار.

اختتام بر دعاءِ مہمان 
      آپ کے ساتھ آنے والے مہمان مکرم مفتی نعیم احمد قاسمی صاحب کی دعا پر مجلس کا اختتام ہوا۔ پروگرام کے بعد طلبہ جامعہ مہمان مکرم سے ملاقات و مصافحہ کے لئے بے چین نظر آئے تو مہمان موصوف نے انہیں مایوس نہیں کیا اور فردا فردا ہر ایک سے مصافحہ فرما کر دل جیت لیا۔ عقیدت و محبت بھری نگاہوں سے طلبہ و اساتذۂ جامعہ نے حضرت قاری صاحب کو الوداع کہا اور زبان حال کہتے رہے 
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد
روئے گل سیر نہ دیدم کہ بہار آخر شد

(افسوس کہ شخصِ محبوب کی صحبت پلک جھپکنے میں ختم ہوگئی، ابھی پھولوں کا چہرہ بھی نہ دیکھ سکا کہ بہار ختم ہوگئی) 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

جامعہ ابوالحسن علی ندوی مالیگاؤں میں ثقافتی پروگرام بعنوان علم اور اہل علم کا مقام

جامعہ ابو الحسن مالیگاؤں میں سہ روزہ تربیتی اور تعارفی نشست

جامعہ ابو الحسن میں بزم خطابت کا تیسرا پروگرام بعنوان "اسلامی عبادتیں اور تہذیب نفس"