جامعۃ العلوم (گڑھا، گجرات) کے وفد کی آمد جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں میں
✍ نعیم الرحمن ندوی
مؤرخہ 15 نومبر 2023ء بروز بدھ قبل عشاء جامعہ ابو الحسن مالیگاؤں میں گجرات کے ہمت نگر، قصبہ گڑھا کے مشہور ادارے جامعۃ العلوم سے وہاں کے ذمہ داران و اساتذہ پر مشتمل ایک وفد کی آمد ہوئی، عشائیہ کے بعد جامعہ کے تعلیمی نظام پر تبادلۂ خیال ہوا، جامعہ کی عمارت کی وزٹ کی اور اپنی مسرتوں کا اظہار کیا، شب مہمان خانے میں قیام اور صبح ناشتے سے فراغت کے بعد صبح آٹھ بجے مہمانان کرام کے استقبالیہ اور تاثرات کی ایک نشست جامعہ کی مسجد؛ حضرت سمیہؓ کے اندرونی حصے میں رکھی گئی۔ وفد میں جامعۃ العلوم گڑھا کے مہتمم حضرت مولانا سیف الدین اسلام پوری کے تینوں فرزند مولانا محمد مدثر ندوی، مولانا محمد سمیر ندوی اور مفتی جمیل احمد ندوی شامل تھے، ساتھ ہی ناظر تعلیمات مولانا محمد حماد ندوی اور اساتذہ میں مولانا محمد شاکر ندوی وغیرہ حضرات بھی موجود تھے۔
استقبالیہ و تعارفی نشست :
(مہتمم صاحب کا خطاب)
نشست میں مہتمم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب دامت برکاتہم نے ان حضرات کا استقبال کیا اور پانچ سال قبل جامعۃ العلوم گڑھا کے سفر اور وہاں سے اخذ و استفادے کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا۔ آپ کے سات منٹوں پر مشتمل جامع استقبالیہ و تعارف آپ ہی کے الفاظ میں پیش ہے۔
" صوبۂ گجرات کے ایک عظیم الشان اور مثالی دینی ادارے جامعۃ العلوم گڑھا کے ذمہ داران اور اساتذہ کرام اس وقت یہاں تشریف فرما ہیں، اس موقع پر میں دل کی گہرائیوں سے ان تمام علماء اور عظیم شخصیات کا جامعہ ابوالحسن کے اساتذہ و اسٹاف کی جانب سے پرتپاک خیر مقدم کرتا ہوں اور اپنی مسرتوں کا اظہار کرتا ہوں کہ آپ کی تشریف آوری نے ہمیں اعزاز اور شرف بخشا، اس پر ہم آپ کے بصمیم قلب ممنون ہیں، جامعۃ العلوم گڑھا ملک ہندوستان کا ایک قابل تقلید اور مثالی دینی ادارہ ہے جامعہ ابوالحسن میں دینی وعصری تعلیم کو جوڑنے کی جو کوشش کی گئی ہے، یہاں عربی و انگریزی زبانوں پر خصوصی محنت کا جو آغاز ہوا اس کا سہرا ایک حد تک جامعۃ العلوم گڑھا کے اساتذہ و اسٹاف اور ذمہ داران کو بھی جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ آج نومبر 2023ء سے تقریبا پانچ سال قبل نومبر 2018ء میں ہم لوگوں نے جامعۃ العلوم گڑھا کا سفر کیا تھا، جامعہ ابو الحسن کے کئی مؤقر اساتذہ پر مشتمل یہ وفد تھا، ہم لوگوں نے وہاں کے کیمپس میں مکمل چار دن گزارے تھے، وہاں کے نصاب تعلیم، نظام تعلیم اور تربیتی نظام کو، ان کی ساری فکر اور جدوجہد کو بہت قریب سے دیکھا تھا، بڑے متاثر ہوئے تھے، بہت سی چیزوں کو یہاں آنے کے بعد نافذ کرنے کی کوشش بھی کی گئی۔ ___ اس عظیم ادارے کی وزٹ کرنے کی تجویز اور مشورہ ملک کے نامور عالم دین حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم (صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ) نے دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ اگر آپ ایک مدرسہ شروع کرنا چاہ رہے ہیں، عصری تقاضوں سے ہم آہنگ دینی ادارے کے قیام کرنے سے پہلے آپ کو چاہیے کہ جامعۃ العلوم گڑھا جا کر دیکھیں، وہاں کے نظام و نصاب تعلیم کو سمجھیں۔ چنانچہ ہم نے وہاں جا کر بہت کچھ دیکھا تھا، سیکھا تھا، مولانا نعیم الرحمن ندوی اس وفد میں شامل تھے، وہاں سے آنے کے بعد انہوں نے مفصل روداد قلمبند کی جو سوشل میڈیا پر چلی اور ایک کتابچے کی شکل میں منظر عام پر بھی آئی۔ بہرحال یہ ادارہ انتہائی عظیم الشان اور قابل تقلید خدمات انجام دے رہا ہے، اس ادارے کے بانی وناظم حضرت مولانا سیف الدین صاحب اسلام پوری دامت برکاتہم العالیہ ہیں، آج ان کے فرزندان گرامی مولانا محمد ثمیر ندوی صاحب حفظہ اللہ، مولانا محمد مدثر ندوی صاحب حفظہ اللہ مفتی محمد جمیل ندوی صاحب حفظہ اللہ یہاں تشریف لائے ہیں، مولانا محمد ثمیر ندوی صاحب وہاں کے ناظم تعلیمات ہیں، مولانا مدثر صاحب ذمہ دار بھی ہیں اور ان کے علاوہ وہاں کے اساتذہ میں مولانا حماد ندوی صاحب ، مولانا شاکر ندوی صاحب بھی ہمارے درمیان تشریف فرما ہیں۔ الحمدللہ نوجوان ندوی فضلاء کی ایک زبردست ٹیم ہے جو وہاں کام کر رہی ہے، ہم نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا، ان کے نظام تعلیم کی ہمہ گیری کو اور اس کی زبردست تاثیر کو دیکھا، اللہ نے اسباب و وسائل کی لائن سے بھی انہیں بہت نوازا ہے، بڑا عالی شان کیمپس، بڑی عالی شان بلڈنگیں ہیں اور نت نئی چیزیں ہیں جو اَور مدارس میں نہیں ہے۔ مثال کے طور پر ایک بات بتاتا ہوں کہ جامعہ کے کیمپس میں ان کی اپنی کرنسی چلتی ہے جیسے ہر ملک کی اپنی ایک کرنسی ہوتی ہے ویسے ہی جامعہ کی اپنی ایک کرنسی ہے، جامعہ کے کیمپس میں آپ کسی دکان میں جائیں، اسٹیشنری خریدیں، کینٹین میں جائیں؛ آپ کو پیسے ادا کرنے ہوں گے تو ہمارا ہندوستانی روپیہ وہاں نہیں چلے گا، طلبہ کے سرپرست وہاں بینک میں پیسہ جمع کرا دیتے ہیں اس کے عوض میں جامعہ کی کرنسی ملتی ہے، وہی کرنسی وہاں چلے گی، اس کیلئے وہاں باقاعدہ ایک 'چلڈرن بینک' قائم کیا گیا ہے جیسے ہمارا بینک ہوتا ہے، اسٹیٹ بینک، ریزرو بینک اور دوسری بینکیں، اس بینک سے آپ کرنسی لیجئے، چیک بنا کر دیجیے، ڈرافٹ بنائیے گویا وہاں طلبہ کو پریکٹیکلی سکھانے کیلئے پورا بینکنگ سسٹم ہے۔ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں بہرحال وقت نہیں ہے کہ مفصل تعارف کرایا جا سکے، ہمارے مہمانان گرامی مالیگاؤں کے مدارس کے دورے پر آئے ہیں، مہاراشٹر کے مختلف علاقوں کے مدارس کا دورہ کرتے ہوئے تشریف لائے ہیں۔
استقبالیہ کلمات و تعارف کے بعد آپ نے مولانا محمد ثمیر ندوی صاحب کو طلبہ و اساتذۂ جامعہ کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی دعوت دی۔
مولانا محمد ثمیر ندوی صاحب کا خطاب :
آپ نے اپنی تقریر کے آغاز میں کہا کہ __ مالیگاؤں پہلی بار آنا ہوا ہے، بہت دنوں سے اس شہر کے متعلق سنا کرتے تھے، آنے کی خواہش تھی اب آپ لوگوں کی میزبانی پر موقع ملا ہے، شہر اور اس کے مسلم باشندوں کے متعلق جیسا سنا تھا ویسا پایا، اسلامی تہذیب کے تابندہ نقوش جا بجا نظر آئے، سڑکوں پر مرد متشرع اور خواتین با حجاب دکھائی دیں، بکثرت مساجد ہیں اور اردو کا عام چلن ہے۔
جامعہ ابوالحسن کے متعلق کہا کہ __ طلبہ اور اساتذہ کا وضع قطع، رہن سہن، تعلیمی انہماک و تربیتی نظام قابلِ اطمینان ہے، جس عظیم شخصیت سے جامعہ کی نسبت ہے یعنی مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ؛ امید ہے مستقبل میں یہاں سے اس شخصیت کے جانشین پیدا ہوں گے، یہاں کے مہتمم حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب؛ مفکر اسلام کی نگاہوں میں رہے ہیں، ان کی صحبتیں اٹھائی ہیں، حضرت کی فکروں اور آپ کے کاموں کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
طلبہ سے خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا کہ __ آپ امت کا مستقبل ہیں، اس طبقے کا ویژن اور مشن، اس کا عمل و کردار امت مسلمہ کا مستقبل طے کرتا ہے، آپ اس اعتبار سے اپنے آپ کو تیار کریں۔ __ طلبہ کو راہ عزیمت اختیار کرنے کی دعوت دی اور نمونہ پیش کیا کہ __ آپ کے مہتمم صاحب بارہویں سائنس میں %91 پرسنٹ سے کامیاب کامیاب ہوئے تھے، اتنے اچھے مارکس کے بعد آگے بہت امکانات تھے، اس سب کے باوجود آپ نے دینی علوم کی طرف توجہ کیا اور ساتھ ہی عصری تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا، آپ بھی انہی کو اپنا آئیڈیل بنائیں اور عصری و دینی تعلیم کا سنگم بنیں۔ اخیر میں عدلیہ سے متعلق شعبوں میں وکیل اور جج بننے کی ضروریات کا احساس دلایا۔
مولانا حماد ندوی کا خطاب :
اسکے بعد مولانا حماد ندوی (ناظرِ تعلیمات جامعۃ العلوم گڑھا) کا خطاب ہوا __ آپ نے کہا کہ اس جامعہ کا نام سنا تھا تبھی سے آنے کا اشتیاق تھا، اس جامعہ کی نسبت علمی و فکری، اصلاحی و تربیتی، ملی وقومی؛ ہمہ جہتی شخصیت سے ہے یعنی مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندویؒ __ جامعہ کو پہلی نظر دیکھنے ہی سے اس بات کا اندازہ ہو گیا تھا کہ جامعہ اس شخصیت سے صرف علمی نہیں فکری نسبت بھی رکھتا ہے، فکرِ ابوالحسن اس کے نظام اور ماحول میں گھلا ملا محسوس ہوا۔ __ مولانا نے فکری میدان کی طرف توجہ کی ضرورت کا احساس دلایا اور "الغزو الفکری؛ فکری یلغار" کے اہم گوشوں کو واشگاف کرتے ہوئے کہا کہ __ مفکرین ہی قوموں کے ذہن و دماغ کو کنٹرول کرتے اور سبب کے درجے میں نظام سیاست و نظام عالم کو چلاتے ہیں، مفکر اسلامؒ اس طرف نہ صرف بیدار تھے بلکہ اس کا جرأت مندانہ سامنا کرتے اور دو ٹوک جواب دیا کرتے تھے، اس ضمن میں حیاتِ ابو الحسنؒ سے بہت سی مثالیں دیں۔
حکمراں طبقے میں مفکر اسلامؒ کے دعوتی منہج کو ذکر کرتے ہوئے کہا کہ __ اس طبقے میں دعوت و تبلیغِ اسلام کے سلسلے میں دو باتیں ہیں؛ ایک یہ کہ اسلام والے کرسی تک پہنچیں لیکن اس میں کرسی والے؛ کرسی چھن جانے کے اندیشے سے مقابلے کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ کرسی؛ کرسی والوں کو مبارک اور اسلام؛ کرسی والوں تک پہنچا دیا جائے۔ یہی دوسرا طریقِ دعوت فی زمانہ مأمون ہے۔ طلبۂ جامعہ بھی عربی انگریزی زبانوں سے اسی منہجِ ابو الحسن کو اپنانے اور پورا کرنے کا عظیم مقصد اپنے سامنے رکھیں۔ اس پس منظر میں مفکر اسلامؒ کی ایسی کوششوں کی بہت سی مثالیں بھی پیش کیں جیسے یونیفارم سول کورٹ، بابری مسجد کے مسئلے، شاہ بانو کیس اور فسادات کے موقعوں پر دو ٹوک اور واضح موقف حکومت اور قوم کے سامنے رکھنا، مسز اندرا گاندھی، مسٹر راجیو گاندھی، وی پی سنگھ، چندر شیکھر، نرسمہا راؤ، دیو گھوڑا جیسے ملک کے ان تمام وزرائے اعظم کے نام مکاتیب و خطوط لکھنا وغیرہ۔
__ اللہ کے نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام فرمانروائے عالم کو اپنے زمانے میں دعوتی خطوط ارسال فرمائے اور اسلام ان تک پہنچایا اسی طرح حضرت مولانا "الی الاسلام من جدید" کی دعوت لے کر عرب حکمرانوں تک پہنچے اور ملک کے اندر بابا صاحب امبیڈکر اور غیر مسلم حکومتی طبقے تک کبھی خود جا کر، کبھی ان کے آنے پر، کبھی خطوط و تحریر کے ذریعے اصلاح و تبلیغ کا فرض انجام دیا۔ اس پس منظر میں حضرت مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول زریں دل کی تختی پر آب زر سے لکھنے لائق ہے، آپ نے فرمایا "داعی کے لیے بہت اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ وہ کھلے دروازے سے داخل ہو، جو دروازے پہلے سے مقفل ہوں ابتدا ہی میں ان کے قفل توڑنے کی کوشش نہ کی جائے۔ کتاب الہی سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے، اہل کتاب کو جب دعوت پیش کی گئی تو سب سے پہلے فرمایا گیا: _ قل یا أھل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم ألا نعبد إلا اللہ ولا یتخذ بعضنا بعضا اربابا من دون اللہ. (آل عمران 64)
ترجمہ : (مسلمانو ! یہود و نصاری سے) کہہ دو کہ : اے اہل کتاب ! ایک ایسی بات کی طرف آجاؤ جو ہم تم میں مشترک ہو، (اور وہ یہ) کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں، اور اللہ کو چھوڑ کر ہم ایک دوسرے کو رب نہ بنائیں۔
اپنے پیشرو مقرر مولانا محمد ثمیر ندوی صاحب ہی کی طرح آپ نے بھی اپنے موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی اور اختصار کے ساتھ بڑا مؤثر بیان کیا۔ واقعی فکری تقریریں و فکری مضامین سب سے زیادہ کشش رکھتے ہیں، سب سے زیادہ پڑھے اور سنے جاتے ہیں، ضرورت ہے کہ ابنائے ندوہ و منتسبینِ ابو الحسنؒ؛ فکرِ ابوالحسنؒ سے استفادہ کریں اور دور حاضر کے چیلنج کے مقابلے کی اہلیت پیدا کریں۔ فکر ابو الحسنؒ پر بہتوں نے لکھا ہے اور بہت اچھا لکھا ہے جس میں ایک اہم کتاب حضرت مولانا بلال حسنی ندوی دامت برکاتہم کی ہے " دعوت و فکر کے اہم پہلو (مفکر اسلامؒ کی تحریروں کی روشنی میں)
جامعہ ابو الحسن کے پروگرام سے فارغ ہو کر ساڑھے نو بجے یہ قافلہ مدارس و جامعات کے شہر مالیگاؤں کے مدارس کی وزٹ پر نکلا، جامعہ معہد ملت پہنچا اور وہاں کے موقر اساتذہ و شیوخ سے ملاقاتیں کی، وقت کی تنگی کے سبب زیادہ نہ رکتے ہوئے 10 بجے یہ قافلہ جامعہ اشاعت العلوم اکلکوا کی طرف رواں دواں ہوگیا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں