جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں کا تیسرا سالانہ اجلاس
روداد نگار : نعیم الرحمن ندوی
کسی بھی دینی ادارے کا سالانہ جلسہ ادارے کی تعلیمی و تربیتی سرگرمیوں سے واقف ہونے اور اس کی دعوتی و اصلاحی خدمات سے متعارف ہونے کا بہترین موقع فراہم کرتا ہے، جامعہ کے حاضرینِ جلسہ جامعہ کی سرگرمیوں کے بچشم خود مشاہد ہیں اور جامعہ کی کارکردگی کے بزبانِ خود معترف ہیں، اس مقصد سے کہ غائبین بھی اس سے ناواقف نہ رہیں یہ روداد پیشِ خدمت ہے۔
مؤرخہ 16/ رجب 1445 ہجری مطابق 28/ جنوری 2024ء بروز اتوار صبح 10 بجے جامعہ ابوالحسن مالیگاؤں کا سالانہ جلسہ منعقد ہوا، جس میں طلبہ کا اہم ترین ثقافتی پروگرام اور تعلیمی مظاہرہ ہوا جس کی مختصر روداد حسب ذیل ہے۔
پروگرام کی نظامت جامعہ کے مؤقر استاذ مولانا محمد اطہر ندوی اور ناظر شعبۂ مکاتب مولانا ساجد خان ندوی صاحبان نے مشترکہ طور پر انجام دی۔
🌷 پروگرام کا آغاز محمد سعد (عربی اول) کی تلاوت قرآن سے ہوا۔
🌷 اس کے بعد عربی نشید "لا الٰہ الا اللہ _ ھو معبودی لیس سواہ" عربی دوم کے طلبہ حافظ محمد عفان اور ان کے ساتھیوں نے عربی لب و لہجے میں پیش کی۔ اس نشید میں عقیدۂ توحید کی بہترین ترجمانی اور دل نشین تشریح ہے جو نو عمر طلبہ کے اعتبار سے معیاری بھی ہے اور تعلیمی و تربیتی دونوں پہلوؤں کو شامل ہے۔ (یہ نشید جامعہ کی "عربی اسمارٹ کلاس" کے نصاب کا حصہ ہے)
🌷 نعت خوانی کے لیے حافظ محمد جنید (عربی دوم) تشریف لائے اور "وہ شہرِ محبت جہاں مصطفی ہے" دلگیر اور دل پذیر صوت و آہنگ میں نعت پڑھی۔
🌷 اس کے بعد دوسری عربی نشید "قم فی الفجر نشیطا وابدأ _ حین تقوم بذکر اللہ" محمد سعد (عربی اول) اور ان کے ہم کلاس رفقاء نے پیش کی۔ اس نشید میں صبح سویرے قبل از فجر بیدار ہونے، نماز پڑھنے، اہتمام سے وضو کرنے اور اخلاص سے نماز پڑھتے رہنے پر مداومت کی ترغیب ہے، بچوں کے ذہن و عمر کو ملحوظ رکھ کر مؤثر انداز میں یہ باتیں پیش کی گئیں، اس سے عربی زبان سیکھنے کے ساتھ تربیت کا مقصد بھی حاصل ہو جاتا ہے۔(یہ نشید بھی جامعہ کی "عربی اسمارٹ کلاس" کے نصاب کا حصہ ہے)
🌷 اناشید کے بعد محمد بن حامد یافعی (خصوصی ثانی) نے " کیا مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں؟" کے عنوان سے تقریر کی۔
___ اپنی تقریر میں انہوں نے مسلمانوں کے کعبۃ اللہ کی طرف رخ کرنے کو غیر مسلموں کی طرف سے پوجا سے تعبیر کیے جانے کا معروضی جواب دیا اور عقیدہ توحیدِ الوہیت کی اچھی تفہیم کی۔
🌷 اس کے بعد "حوار بین العلم والجہل" کے عنوان سے خصوصی اول کے طالب علم نوید الرحمن اور ان کے آٹھ رفقاء نے دلچسپ عربی مکالمہ پیش کیا، اس میں بنیادی کردار تین ہیں، نور نام کا لڑکا گرمیوں کی طویل چھٹیاں کیسے گزارے کچھ علمی سرگرمی انجام دے یا تمام چھٹیاں بس سیر و تفریح اور کھیل کود کی نذر کردے؟ اس سلسلے میں علم اور جہل دونوں اسے اپنی اپنی طرف آنے کی دعوت دیتے ہیں، قائل کرنے کے لیے دلائل پیش کرتے ہیں، آخر میں علم؛ جہل پر غالب آجاتا ہے اور نور؛ جہل کو ٹھوکر مار کر علم سے ہاتھ ملاتا اور حصول علم کی طرف چل پڑتا ہے۔
*عربی زبان کا مظاہرہ :*
اس کے بعد حافظ محمد عمر (خصوصی ثالث) عربی میں درس حدیث کے لیے مدعو کیے گئے، انہوں نے استاذِ حدیث کی رہنمائی میں عربی درس حدیث کی تیاری کی، ملحوظ رہے کہ یہ عربی درس حدیث لفظ بلفظ یاد کرکے نہیں سنایا گیا بلکہ برجستگی کے ساتھ عربی میں درسِ حدیث دیا، ماشاءاللہ بہت اعتماد سے اپنا تعلیمی مظاہرہ پیش کیا۔
*انگریزی زبان کا مظاہرہ :*
اس کے بعد "عربی سے براہ راست انگریزی ترجمے کی استعداد" کا مظاہرہ ہوا، خصوصی اول یعنی سال اول کے طلبہ میں خان عبدالرحمن اور خان انس نے "عربی کتاب قصص النبیین اول" میں 'قصة نوح _ قصة ابراہیم' مہتمم صاحب کی زیر نگرانی عربی سے انگریزی ترجمہ کرنے کی محنت کی، اجلاس کے مہمان خصوصی، انگریزی اور عربی زبان کے ماہر اور مترجم مولانا ضیاء الدین ندوی صاحب نے ان کا امتحان لیا، سوالات کئے جن کے جوابات ان طلبہ نے برملا اور برجستہ دیے،
🌷 اسی طرح خصوصی ثانی کے طالب علم محمد صدیق نے "مکمل سورہ یاسین کے انگریزی ترجمے" کی تیاری کی اور اسٹیج پر امتحانی سوالوں کے بڑے اعتماد سے جواب دیئے،
🌷 اس کے بعد خصوصی ثالث کے طالب علم حافظ اجود حسان نے "عربی انگریزی دونوں زبانوں میں سورۃ العصر کی تفسیر" بڑی سلاست و روانی سے پیش کی، سورۃ العصر کی جامعیت اور معنویت کے پیش نظر ان زبانوں میں اس کی تفسیر بڑی معنی خیز تھی۔(یہ تفسیر بھی رٹی رٹائی نہیں تھی بلکہ برجستہ تھی)
*امتیازی اور انفرادی محنت :*
عرض کرتے چلیں کہ مہتمم جامعہ کی ایک انفرادیت و امتیاز یہ بھی ہے کہ انگلش میڈیم سے دسویں، بارہویں پاس ہوکر آنے والے طلبہ کی انگریزی استعداد کو نہ صرف ضائع ہونے سے بچاتے ہیں بلکہ مزید بڑھانے کی فکر اور عملی کوششیں کرتے ہیں، انگلش میڈیم سے دسویں بارہویں پاس ہوکر جامعہ میں عالمیت کے شعبۂ خصوصی میں داخلہ لینے والے مذکورہ بالا چاروں طلبہ کی صلاحیتوں کو مہتممِ جامعہ کی خصوصی توجہات نے چار چاند لگا دیئے اور مزید نکھارنے سنوارنے کا عمل اب بھی جاری و ساری ہے۔
اب تک کا یہ اردو عربی اور انگریزی زبانوں کا بہترین تعلیمی و ثقافتی مظاہرہ تھا، اس کے بعد بزم میں نشاط پیدا کرنے کے لیے حافظ شیخ عادل (عربی اول) آئے اور جذبۂ حبِّ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو مہمیز کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آن بان اور شان پر مر مٹنے کے ہر امتی کے جذبۂ عشق کو تروتازہ کیا اور یہ نعت پڑھی
"مسلمانوں کا شیوہ ہے محمدؐ سے وفا کرنا
نمازِ عشق تلواروں کے سائے میں ادا کرنا"
نعت خواں ایک الگ ہی کیف، ایک الگ ہی رنگ محفل پر طاری کرگئے۔
🌷 اس کے بعد جامعہ ابوالحسن میں اِس سال اپنا تعلیمی سفر پورا کرنے اور تکمیل کیلئے دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی طرف کوچ کرنے والے طلبہ کی نمائندگی کرتے ہوئے شیخ مجاہد (خصوصی ثالث) نے اپنی تأثراتی تقریر پیش کی، تقریر میں جامعہ میں اپنے تعلیمی سفر کے آغاز سے لے کر اب تک کے مراحلِ تعلیم و تربیت اور اساتذۂ جامعہ اور اراکینِ جامعہ کے فعال کردار اور جدوجہد کو مؤثر انداز میں پیش کیا۔ موصوف شاعری میں بھی درک رکھتے ہیں، خود کا تیار کردہ الوداعی کلام بھی پیش کیا اور واقعۃً اپنی اور تمام ساتھیوں کی طرف سے اچھی نمائندگی کی۔ ایک بند پیش خدمت ہے
💐 الوداع الوداع جامعہ بوالحسن 💐
✍🏻 مجاہد راہی
الوداع الوداع الوداع اے چمن
الوداع الوداع جامعہ بوالحسن
اب تلک تیرے دامن میں ہم ہیں پڑھے
اب تلک تیرے سائے میں ہم ہیں بڑھے
اب تجھے چھوڑ کر ہم یہاں سے چلے
آنکھ حیران ہے غمزدہ قلب و من
الوداع .......
الوداع .......
_____________________
🌷 آخر میں جامعہ کے روح رواں مہتمم جامعہ حضرت مولانا جمال عارف ندوی صاحب دامت برکاتہم نے جامعہ کی سالانہ رپورٹ مختصراً پیش کی، جامعہ کے آئندہ کے عزائم اور منصوبے کا ذکر کیا۔
🌷 اس کے بعد مہمان مکرم کے سامنے تکمیلِ حفظ قرآن مجید اور تکمیلِ مشکوٰۃ شریف ہوئی۔
بعد ازاں حضرت مولانا بلال حسنی ندوی دامت برکاتہم نے مشکوٰۃ کی آخری تین حدیثوں کی مناسبت سے خطاب فرمایا، آپ کے خطاب میں درس سے متعلق علمی رنگ کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ میں عوام و خواص کی رہنمائی کا عنصر بھی شامل تھا۔
*مہمان مکرم کا خطاب اور درس کا خلاصہ :*
٭ قرآن و حدیث کا آپس میں کیسا ربط ہے؟
٭ مشکوٰۃ شریف صحاح ستہ کا بہترین انتخاب ہے
٭ آخری تین حدیثوں میں موجود حقائق کی روشنی میں آج کے حالات کو بآسانی سمجھا جا سکتا ہے
٭ شام میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے عہد میں موجودہ پانچ ملک شامل تھے؛ ۱) شرقِ اردن ۲) فلسطین ۳) سیریا ۴) لبنان اور ۵) مقبوضہ فلسطین، انہی خطۂ شام کے بارے میں ارشاد ہے ؛ بارکنا حولہ __
٭ عرب ملکوں کی منافقت اور ظلم کی طرف داری کی صاف الفاظ میں مذمت
٭ اِس امتِ اجابت کی ذمہ داری؛ دعوت و اصلاحِ عالَم
٭ ارتداد کے اس سیلاب میں علماء کی ذمہ داری
٭ اصلاح و دعوت پوری امت کی ذمہ داری ہے کہ خیر امت؛ بحیثیت امت کہا گیا ہے
٭ معاشرتی حقوق کی ادائیگی کی تلقین
شہر مالیگاؤں کے بزرگ عالم دین، شیخ الحدیث جامعہ معھد ملت، بقیۃ السلف حضرت مولانا محمد ادریس عقیل ملی قاسمی دامت برکاتہم کی دعاؤں پر جلسہ اختتام پذیر ہوا۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں